Premium Content

Add

اقبال اور رومی ملک حسن اختر کی نظر میں (حصہ دوئم)

Print Friendly, PDF & Email

تحریر: ڈاکٹرعبید اللہ سرمد

یہاں اس بات کا تذکرہ بھی ضروری ہے کہ ملک حسن اختر صاحب کے اس مضمون میں جابجا املا کی اغلاط موجود ہیں۔ خصوصا ًفارسی لکھتے وقت یہ اور بھی زیادہ تعداد میں سامنے آتی ہیں۔ مثال کے طور پر اوپر درج شدہ پہلے شعر میں اذاں کی املا ”و“ کی بجائے ”ز“ سے لکھی ہے کہ اسی طرح صفحہ 139 پر ہی ایک شعر ہے

ماز قرآن برگزیدیم مغزرا
استخواں چیش سگاں اوا فت یم

:جب کہ اصل شعر اس طرح ہے

ماز قران برگزیدم مغزرا
استخواں پیش سگال انداخت یم

 یعنی کتاب میں انداخت یم کو ادافت یم لکھا ہوا ہے جو اس درجہ عالمانہ اور تحقیقی کتاب میں قابل برداشت نہیں ہے۔

:ملک حسن اختر صاحب نے اقبال اور رومی کے اختلافی نکات کو عمدگی کے ساتھ واضح کیا ہے۔ لکھتے ہیں کہ

تعجب ہے کہ علامہ اقبال نے رومی کو اپنا رہنما بنایا مگر باطنی مفہوم کو رد کر دیا۔ وہ غالباً باطنی مفہوم کے اس لیے مخالف بن گئے کہ حافظ کے اشعار میں باطنی مفہوم کو زیادہ اہمیت دی جاتی تھی۔ مگر قرآن کی بے شمار تفسیر میں اس بات کی علامت ہیں کہ اس کے بھی معنی کی کئی تہیں ہیں جیسا کہ مولانا روم کے اشعار سے واضح ہو جاتا ہے۔ بہر حال یہاں علامہ نے رومی اور حافظ کو ایک ہی پیمانے سے نہیں جانچا۔

یہ بہت اہم بحث ہے۔ اس میں ملک حسن اختر صاحب دو اہم نقاط کو سامنے لائے ہیں۔ ایک یہ کہ اقبال قران کے باطنی کی بجانے ظاہری معنی کو ترجیح دیتے ہیں۔ جب کہ مولانا روم کے نزدیک قرآن کے باطنی معنی کی بھی زبر دست اہمیت ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ علامہ اقبال نے ایک ہی نقطہ اختلاف ہونے کے باوجود مولانا روم اور حافظ شیرازی کو الگ الگ آنکھ سے دیکھا ہے یعنی ان کے ہاں ”مر شد رومی“ کے حق میں ترازو میں جھول ہے۔ کیونکہ رومی اور حافظ دونوں ہی قرآن کے باطنی معنی کو اہمیت دیتے ہیں تو پھر مولانا روم کی تعریف اور حافظ کی مذمت کیوں۔ یہ باریک نقطہ ملک حسن اختر صاحب کی اعلیٰ تنقیدی بصیرت کی عکاسی کرتا ہے۔

اردو اور انگریزی میگزین آن لائن حاصل کرنے کےلیے نیچے دیے گئے لنک  پر کلک کریں

https://www.daraz.pk/shop/3lyw0kmd

 کچھ اور اختلافات بھی ڈاکٹر ملک حسن اختر نے رومی اور اقبال کے درمیان بیان کئے ہیں۔ مثلاً لکھتے ہیں کہ ایک حکائت میں مولانا نے وجود کو دیوار اور خدا کو نہر سے تشبیہ دی ہے۔ کہتے ہیں کہ دیوار کو گرا کر ہی نہر تک پہنچا جا سکتا ہے لیکن علامہ اقبال وجود کو مٹانا نہیں چاہتے بلکہ وہ تو خودی کو قائم رکھ کر اسے قوی بنانے کے حق میں ہیں۔

:ملک حسن اختر صاحب کا کہنا ہے کہ

مولانا روم نے جتنا خودی کے مٹانے پر زور دیا ہے علامہ نے اتنا ہی نفس یا تن کو قابو میں رکھنے کی اہمیت کو جتایا ہے۔ علامہ خودی سے تعمیر ذات مراد لیتے ہیں۔ جب کہ مولانا کے نزدیک خودی تخریب ذات کا ذریعہ ہے۔ ملک حسن اختر صاحب نے باطنی معنی کی مذمت کے ضمن میں علامہ اقبال کے ایک خط کا اقتباس نقل کیا ہے

حقیقت یہ ہے کہ مذہب یا اقوام کے دستور العمل میں باطنی معنی تلاش کرنا یا باطنی مفہوم پیدا کرنا اصل میں اس دستور العمل کو مسخ کر دیتا ہے۔

اس کے بعد ملک حسن اختر نے لکھا ہے کہ مولانا روم باطنی مفہوم کے قائل ہیں۔ وہ قرآن میں ایک نہیں سات باطنی مفہوم تلاش کرتے ہیں۔ انھوں نے کہا ہے کہ مولانا روم کے نزدیک زیادہ اہمیت تو باطنی معانی کی ہی ہے۔ ظاہری معنی کی حیثیت تو بس پوست یا کھال کی سی ہے۔ اس کے علاوہ انھوں نے افلاس کی مذمت بھی کی ہے۔ لیکن ملک حسن اختر نے یہاں واضح کیا ہے کہ یہاں اقبال کو غلط فہمی ہوئی ہے۔ لکھتے ہیں کہ سنائی اور دیگر صوفیا افلاس کی تعریف اس لیے کرتے ہیں کہ دولت کی محبت انسان کوشرف انسانیت سے گرا دیتی ہے اور انسان بہت سی برائیوں کا شکار ہو جاتا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ملک حسن اختر نے یہ بھی کہا ہے کہ شاہین جو کہ اقبال کا پسندیدہ پرندہ ہے اور مرد مومن میں اقبال شاہین جیسی صفات دیکھنا چاہتے ہیں۔ جن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ شاہین آشیانہ نہیں بناتا گویا بے گھر ہے۔ جدید معنی میں یہ کہ بچت ( سیونگ) نہیں کرتا ۔ مرد قلندر ہے۔ یعنی بے نیاز ہے۔

اقبال کی شاعری مرد قلندری کی تعریفوں  سے بھری پڑی ہے۔ ملک حسن اختر نے کہا ہے کہ ان صفات کی موجودگی میں کیا مرد قلندر امیر ہو سکتا ہے۔ یعنی دنیاوی لحاظ سے دولت مند ۔ ظاہر ہے اس کا جواب نفی میں ہی ہو گا۔ ملک حسن اختر اس سلسلے میں اقبال کے کچھ اشعار بھی لکھ دیتے تو اچھا تھا۔ مثال کے طور پر

مرا طریق امیری نہیں فقیری ہے
خودی نہ بیچ غریبی مں نام پیدا کر
اٹھانہ شیشہ گرنِ فرنگ کے احساں
سفل ہند سے مینا و جام پیدا کر

یہ آرزو کے لحاظ سے بہت اعلیٰ خیال ہے لیکن عملی طور پر دیکھیں تو غریبی کی ذلتیں خودی کو ختم کر دیتی ہیں۔ ساحر لدھیانوی نے لکھا تھا کہ

بھوک آداب کے سانچوں میں نہیں ڈھل سکتی
مفلسی حس لطافت کو مٹا دیتی ہے

جہاں تک شیشہ گرن فرنگ کے احساں نہ اٹھانے کی بات ہے۔ ان کی ایجادات سے بہرہ مند ہونے کے ساتھ ساتھ قرض کی رقم بھی ہم انہیں سے لے رہے ہیں۔ اس طرح اقبال کی تلقین تو عمدہ ہے لیکن اس کا عملی مظاہرہ کیسے ہو ، اصل سوال یہ ہے۔

 ملک حسن اختر صاحب نے بہت کم اقبال کے کسی نظریے سے اختلاف کیا ہے۔ یہاں یہ دیکھ کر حیرت ہوتی ہے کہ انھوں نے سنائی و عطار کے کچھ نظریات و افکار کے متعلق اقبال کی ناپسندیدگی کو غلط قرار دیا ہے۔ ملک حسن اختر اگر مکمل غیر جانبداری بر تیں تو بہت اعلیٰ درجے کی تنقید نگاری پیش کرتے ہیں۔ یعنی جہاں جہاں بھی وہ ذرا غیر جانبدار ہوئے ہیں ان کی تحقیق و تنقید کا معیار بہت بلند ہو گیا ہے۔

اس طرح ملک حسن اختر نے اقبال اور رومی کے ضمن میں رومی کے دو ممدوحین کے لیے اقبال کی ناپسندیدگی کورد کر دیا ہے اور بڑے قاعدے اور سلیقے اس استرداد کا دفاع کیا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ ترک دنیا اور ترک اسباب کا صوفیانہ رویہ بجاطور پر اقبال کی مذمت کا نشانہ رہا ہے جو کہ یہاں بھی بجاطور نظر آتا ہے۔ اقبال اور رومی کے ضمن میں ملک حسن اختر کے موقف کے درج بالا تجزیہ کی روشنی میں دیکھا جائے تو یہ اہم باتیں سامنے آتی ہیں:۔

۔1۔ رومی اور اقبال دونوں جبریہ کی بجائے قدریہ مکتب فکر سے تعلق رکھتے ہیں یعنی وہ تقدیر کے جبر کے معروف معنوں میں قائل نہیں۔

 ۔2۔ دونوں کا منبع ء فکر قرآن ہے۔

۔3۔ عروج و زوال امم دونوں کے موضوعات میں سے ہے۔

۔4۔مولانا روم قرآن کے باطنی معنوں کو زیادہ اہمیت دیتے ہیں بلکہ کہتے ہیں کہ آیات قرآنی کے سات باطنی معنی ہیں جب کہ اقبال باطنی معنی کو فتنہ و اختلاف اور بے عملی کا باعث گردانتے ہیں۔

۔5۔ اقبال نے باطنی معنی پر زور کی وجہ سے حافظ کی مذمت کی ہے اور انہیں مسلک گوسفندی کا نمائندہ قرار دیا ہے جب کہ دوسری طرف مولانا رومی صوفی بھی ہیں اور باطنی معنی پر بھی زور دیتے ہیں لیکن اقبال نے ان کے خلاف کچھ نہیں لکھا۔ اس طرح انھوں نے ان دو عظیم شخصیات یعنی حافظ شیرازی اور مولانا روم کے درمیان امتیازی سلوک روا رکھا ہے۔  

۔6۔ملک حسن اختر جو عموماً ہمیشہ اقبال کی طرف تعریفی نقطہ نگاہ رکھتے ہیں یعنی تسلیم رضا والا رویہ لیکن اس مضمون میں انھوں نے خالصتاً غیر جانبدارانہ تجزیہ اقبال اور رومی کے ضمن میں کیا ہے۔ جو ان کی اعلیٰ تحقیق و تنقیدی صلاحیتوں کا عکاس ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

AD-1