Premium Content

ہم عورت اسی کو سمجھتے ہیں جو ہمارے گھر کی ہو

Print Friendly, PDF & Email

ڈاکٹر قرۃ العین سدوزئی

وہ ایک طوائف تھی، کوئی کہہ رہا تھا کال گرل ہے، وہ شاید نشے میں تھی لیکن مجھے وہ صرف ایک عورت لگی جسے رات کے ڈیڑھ بجے لوکل پولیس شہر کے مضافاتی جنگل سے برہنہ اٹھا کر لائی تھی، جس کے چہرہ اور اعضائے مخصوصہ کو تیزاب سے جلایا گیا تھا۔ ہسپتال کا ایمرجنسی کمرہ تیزاب کی بدولت شدید بدبودار ہو چُکا تھا۔ پولیس اہلکار اعلی افسران اور میڈیا کو ”ایک خبر“ دینے کی تگ و دو میں تھے۔

آپ میری میڈم سے بات کریں چھبیس سالہ وہ لڑکی جس کا جسم اس کے پیشے کے لیے ناکارہ ہو چکا تھا، ایمرجنسی کمرے کے سٹریچر پر پڑے پڑے میڈم کا نمبر کسی رٹے رٹائے سبق کی طرح دہرا رہی تھی۔ شاید ایسے موقعوں کے لیے ہی میڈم نے نمبر یاد کروایا تھا۔

ایمرجنسی ٹریٹمنٹ کے بعد آئی۔ سی۔ یو شفٹ کروا دیا تو ہسپتال کے عملے میں چہ میگوئیاں ہونے لگیں۔

Pl, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com

ایسے کاموں کا ایسا ہی نتیجہ ہوتا ہےایک تبصرہ سنائی دیا۔ ”ایسے بدکردار لوگوں کو دنیا میں ہی سزا مل جاتی ہے“ ایک پڑھے لکھے نے مذہبی حوالہ دیا۔ اتنی شدید بدبو تو تیزاب کی نہیں تھی جتنی بظاہر نارمل نظر آنے والے ان لوگوں کی باتوں سے آ رہی تھی۔ جنہوں نے کسی مذہبی یا اخلاقی تھیوری کا سہارا لے کر سارا الزام عورت پر ڈال دیا اور سزا جزا کا فیصلہ بھی منٹوں میں کر دیا۔

منٹو نے لکھا تھا، ”ہم عورت اسی کو سمجھتے ہیں جو ہمارے گھر کی ہو، باقی ہمارے لیے کوئی عورت نہیں ہوتی بس گوشت کی دکان ہوتی ہے اور ہم اس دکان کے باہر کھڑے کتوں کی طرح ہوتے ہیں جن کی ہوس زدہ نظر ہمیشہ گوشت پر ٹکی رہتی ہے۔

دو دن تک ایمرجنسی اور آئی۔ سی۔ یو کے اسُ کمرے سے تیزاب کی بدبو نہ گئی، لیکن ایک لڑکی جسے نو عمری میں ہی تعلیم کا حق چھین کر، کوئی ہنر سکھائے بغیر ایک شرابی کے ساتھ رخصت کر دیا گیا، مار پیٹ کے دوران جب شوہر نے طلاق دے کر گھر سے نکال دیا تو کسی شناسا نے دوسرے شہر میں بیچ دیا۔ کہتے ہیں دنیا کا سب سے بڑا مقناطیس روٹی ہے اور جب یہ مقناطیس اسے میڈم کے پاس لے آتا ہے تو اس معاشرے کے جنسی بھیڑیے کسی کاروباری رقابت یا ذاتی دشمنی میں اس گوشت کی دکان کی بوٹی بوٹی کر دیں یا اسے جلا دیں، ہمارے تعفن زدہ معاشرے کو بدبو صرف تیزاب کی آتی ہے۔

Pl, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com

اگلے دن زخموں کی صفائی کے لیے آپریشن تھیٹر میں لے جایا گیا اور بے ہوشی اور ہوش کے بیچ میں اس بدکردار عورت نے شہر کے باکردار معززین کے نام گنوا دیے جنہیں شہر کی طوائفوں سے بہتر کوئی نہیں جانتا۔ لیکن، اسی معاشرے نے ان معززین کو برا بھلا کہا نہ ان کی سزا جزا کا تعین کیا۔ دو ہفتے علاج کے بعد اسے پولیس کسٹڈی میں ڈسچارج تو کر دیا گیا لیکن اس کے جسم پر موجود نشان سوال کرتے رہیں گے کہ ہماری قومی ذہنی پسماندگی کا علاج کہاں سے ممکن ہو پائے گا؟ اس تعفن زدہ معاشرے میں ذہنی پستی کے ساتھ سانس لیتے ہوئے ہمیں بدبو صرف تیزاب کی آتی ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos