نائب وزیرِاعظم اور وزیرِخارجہ اسحاق ڈار نے اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل کے ایک اہم اجلاس کی صدارت کرتے ہوئے عالمی ضمیر کو جھنجھوڑتے ہوئے کہا کہ “غزہ میں نسل کشی دنیا کی نظروں کے سامنے ہو رہی ہے، اور اقوامِ متحدہ یا تو اسے روکنے میں ناکام ہو چکی ہے یا روکنا نہیں چاہتی۔”
یہ اجلاس مشرقِ وسطیٰ بالخصوص غزہ کی بگڑتی ہوئی انسانی صورتحال پر بلایا گیا تھا، جہاں لاکھوں فلسطینی شہری مسلسل بمباری، خوراک کی شدید قلت، طبی سہولیات کے فقدان، اور بے گھر ہونے کے بحران کا سامنا کر رہے ہیں۔
اسحاق ڈار نے اپنی تقریر میں واضح الفاظ میں کہا کہ غزہ میں اسپتالوں، اسکولوں، اقوامِ متحدہ کے دفاتر، امدادی قافلوں اور پناہ گزین کیمپوں کو نشانہ بنانا کسی “غلطی” کا نتیجہ نہیں بلکہ ایک منظم اور دانستہ حکمتِ عملی ہے، جس کا مقصد پوری آبادی کو اجتماعی طور پر سزا دینا ہے۔
انہوں نے کہا کہ یہ حملے عالمی قوانین، بین الاقوامی انسانی حقوق، اور اقوامِ متحدہ کے چارٹر کی صریح خلاف ورزی ہیں، اور اگر عالمی برادری نے فوری اقدامات نہ کیے تو یہ خاموشی تاریخ کا ایک سیاہ باب بن جائے گی۔
سلامتی کونسل کے دیگر اراکین نے بھی غزہ میں فوری جنگ بندی، انسانی راہداریوں کے قیام، اور شہریوں کے تحفظ پر زور دیا۔ کئی ممالک نے اسرائیل کی جانب سے کی جانے والی اندھی بمباری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ یہ اقدامات کسی بھی انسانی یا قانونی جواز سے محروم ہیں۔
غزہ کی صورتحال دن بہ دن بدتر ہوتی جا رہی ہے۔ لاکھوں افراد بے گھر ہو چکے ہیں، خوراک اور پانی ناپید ہے، طبی سہولتیں ختم ہو چکی ہیں، اور بچے شدید غذائی قلت کا شکار ہیں۔ ایسے میں پاکستان کی جانب سے اقوامِ متحدہ میں دی جانے والی آواز نہ صرف اصولی ہے بلکہ مظلوموں کے ساتھ یکجہتی کا عملی اظہار بھی ہے۔
اسحاق ڈار کا خطاب پاکستان کے دیرینہ مؤقف کی توسیع ہے کہ فلسطین کی آزادی، خودمختاری، اور انسانی وقار کا تحفظ عالمی امن کے لیے ناگزیر ہے۔