انسدادِ جراثیمی مزاحمت پاکستان کا ایک سنجیدہ صحت عامہ کا مسئلہ
انسدادِ جراثیمی مزاحمت ایک تیزی سے بڑھتا ہوا عالمی اور پاکستان کا اہم مسئلہ ہے جو ہر سال پاکستان میں تقریباً سات لاکھ افراد کی موت کا سبب بنتا ہے یہ اموات دل کی بیماریوں اور حمل و زچگی کی پیچیدگیوں کے بعد تیسری بڑی وجہ بن چکی ہیں
اینٹی بائیوٹکس کا کردار اور اس کا غلط استعمال
اینٹی بائیوٹکس کو پہلے معجزاتی دوا کہا جاتا تھا کیونکہ یہ بہت سی جانیں بچانے میں مددگار ثابت ہوئی تھیں لیکن اب ان کا زیادہ اور غلط استعمال ایک بڑا مسئلہ بن گیا ہے پاکستان اینٹی بائیوٹکس کا دنیا میں تیسرا سب سے بڑا صارف ہے صرف دو ہزار تئیس میں ان ادویات پر 126 ارب روپے خرچ ہوئے جو صحت کے نظام پر بھاری بوجھ ہے
جراثیمی مزاحمت کی وجوہات
بیکٹیریا اور دیگر جراثیم اب جدید اینٹی بائیوٹکس کے خلاف مزاحمت پیدا کر چکے ہیں جس کی وجہ سے علاج مشکل ہو گیا ہے اس مسئلے کی اہم وجوہات میں بغیر ڈاکٹر کے نسخے کے اینٹی بائیوٹکس کا استعمال مکمل علاج نہ کرنا یعنی دوا کا کورس پورا نہ کرنا غیر مستند یا جعلی ادویات کا استعمال جانوروں اور مویشیوں میں اینٹی بائیوٹکس کا بے تحاشا اور غیر ضروری استعمال اور دواؤں کی غیر معیاری پیداوار اور فروخت شامل ہیں خاص طور پر مویشیوں میں اسی فیصد کیسز میں جراثیم مزاحم ہو چکے ہیں جو انسانوں کی صحت اور ملک کی غذائی سلامتی کے لیے خطرناک ہے
حکومت اور معاشرے کی ذمہ داریاں
حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام مریضوں اور صحت کے کارکنوں میں اس مسئلے کے بارے میں شعور بیدار کرے اس کے لیے مختلف اقدامات کیے جا سکتے ہیں جیسے طبی عملے کی تربیت اور آگاہی عوام میں اینٹی بائیوٹکس کے صحیح استعمال کی تعلیم اسکولوں اور کمیونٹی مراکز میں تعلیمی پروگرام اور ہسپتالوں کلینکس اور فارمیسیز میں معلوماتی مواد فراہم کرنا
قوانین اور نگرانی کی ضرورت
اینٹی بائیوٹکس کی فروخت پر سخت قوانین لاگو کیے جائیں تاکہ یہ دوائیں صرف ڈاکٹر کے نسخے پر دستیاب ہوں دوا ساز کمپنیوں کی نگرانی بھی ضروری ہے تاکہ صرف معیاری اور مؤثر ادویات بنیں اور بازار میں آئیں
صحت کے نظام میں اصلاحات اور سرمایہ کاری
صحت کے نظام میں سرمایہ کاری کی جائے تاکہ ہسپتالوں میں اینٹی بائیوٹکس کے درست استعمال کو یقینی بنایا جا سکے خاص طور پر اسٹورڈشپ پروگرامز کو مضبوط کیا جائے جو بے جا نسخہ نویسی کو روکنے میں مددگار ہوتے ہیں کووڈ انیس کی وبا سے حاصل تجربات کو بھی اس عمل میں شامل کیا جانا چاہیے کیونکہ اس دوران بھی اینٹی بائیوٹکس کا غیر ضروری استعمال ہوا تھا
حفاظتی ٹیکا جات کی اہمیت
حفاظتی ٹیکا جات پروگرامز بھی جراثیمی مزاحمت کو کم کرنے میں مدد دیتے ہیں مثال کے طور پر سندھ میں ٹائیفائیڈ کنجوگیٹ ویکسین مہم کی کامیابی نے اس بات کو ثابت کیا ہے کہ ویکسین بیماریوں کو روک کر اینٹی بائیوٹکس کے ضرورت سے زیادہ استعمال کو کم کرتی ہے
مستقبل کا خطرہ اور حل
اگر ہم نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے نہ لیا اور فوری اور مربوط اقدامات نہ کیے تو عام انفیکشن بھی ناقابل علاج ہو سکتے ہیں یہ طبی سائنس کی ترقی کو پیچھے لے جائے گا اور آنے والی نسلوں کے لیے صحت کے حوالے سے خطرہ بن جائے گا تنہا منظم اور اجتماعی کوششوں سے ہی ہم انسدادِ جراثیمی مزاحمت کے بحران کو روک سکتے ہیں اور ایک صحت مند اور محفوظ مستقبل یقینی بنا سکتے ہیں