‏بیوروکریسی یا سیاستدان : کون کرپٹ زیادہ؟

[post-views]
[post-views]

ادارتی تجزیہ

پاکستانی عوام اور میڈیا میں یہ بیانیہ نہایت مضبوط ہے کہ ملک کی بدعنوانی اور گورننس کی ناکامی کا اصل ذمہ دار سیاستدان ہے۔ یہ تاثر اس قدر غالب ہو چکا ہے کہ ہر کرپشن ، بدانتظامی، یا ناکام پالیسی کا پہلا الزام منتخب نمائندوں پر ہی عائد کیا جاتا ہے۔ اس میں شک نہیں کہ بعض سیاستدان بدعنوانی میں ملوث رہے ہیں، اور سیاسی نظام میں شفافیت اور احتساب کی ضرورت مسلمہ ہے۔ تاہم، تصویر کا دوسرا رخ شاید ہی کبھی توجہ حاصل کرتا ہے: پاکستان کے انتظامی ڈھانچے کی ریڑھ کی ہڈی — یعنی بیوروکریسی — کا وہ کردار جو کرپشن اور گورننس کی خرابی میں مسلسل اور منظم انداز سے موجود ہے۔

سیاستدان اپنی سیاسی جدوجہد کا بیشتر حصہ اپوزیشن یا نظام سے باہر گزارتے ہیں۔ حکومت میں ان کا وقت عموماً محدود اور غیر تسلسل کا حامل ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، ایک وزیرِاعظم چار یا پانچ سال حکومت میں ہوتا ہے، جبکہ بیوروکریسی کے اعلیٰ افسران 30 سے 35 سال مستقل طاقت میں رہتے ہیں، اور اکثر ریٹائرمنٹ کے بعد بھی مشاورتی، کنٹریکٹ، یا بیرونِ ملک تعیناتیوں کے ذریعے سسٹم میں فعال رہتے ہیں۔ یہ وہ مسلسل موجودگی ہے جس کے ذریعے بیوروکریسی طاقت کا ایک ایسا تسلسل قائم کرتی ہے جو کسی سیاسی حکومت کے پاس نہیں ہوتا۔

فیڈرل سیکریٹریز، صوبائی سیکریٹریز، ایڈمنسٹریٹو ہیڈز اور اداروں کے زمرہ اوّل آفیسرز وہ طبقہ ہے جو ریاستی مشینری کو چلاتا ہے۔ پاکستان کے تمام کلیدی ادارے، پالیسی میکنگ سے لے کر فنانشل ایگزیکیوشن تک، انہی کے قلم کے نیچے سے گزرتے ہیں۔ اس طبقے کے مالی و انتظامی اختیارات اس حد تک وسیع ہیں کہ ان میں شفافیت اور احتساب کے بغیر کرپشن کا راستہ آسان ہو جاتا ہے۔ زمینوں کی الاٹمنٹ، ٹھیکوں کی منظوری، ترقیاتی فنڈز کی تقسیم، اور بین الاقوامی معاہدوں کی تیاری جیسے معاملات اکثر انہی افسران کے دستخط سے طے پاتے ہیں، جبکہ وزیر یا سیاستدان محض ان فائلوں پر منظوری کی رسمی مہریں لگاتے ہیں۔

مزید یہ کہ بیوروکریسی کا طرزِ زندگی، دوری شہریت، بیرونِ ملک اثاثے، اور خاندانی نیٹ ورکس اس بات کی نشان دہی کرتے ہیں کہ یہ طبقہ نہ صرف مالی استحکام رکھتا ہے بلکہ سیاسی طور پر بھی خود کو ہر حکومت کے ساتھ مطابقت دینے میں ماہر ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ دوہری شہریت اگر ایک سیاستدان کے لیے ناقابلِ قبول سمجھی جاتی ہے، تو بیوروکریٹ کے لیے وہ کوئی مسئلہ نہیں۔ بیوروکریٹس اپنی جائیدادیں بیویوں، بچوں یا دیگر رشتہ داروں کے نام پر رکھتے ہیں، اور اکثر چھ یا اس سے زیادہ فرنٹ مین کے ذریعے اپنے مالی معاملات چلاتے ہیں۔ یہ ایک منظم کرپشن کا نیٹ ورک ہے، جو نظر تو نہیں آتا، مگر پورے نظام کو اندر سے کھوکھلا کرتا ہے۔

ایسی صورتحال میں جب سیاستدانوں کا تواتر سے احتساب کیا جاتا ہے، بیوروکریسی کا احتساب یا تو نمائشی ہوتا ہے یا بالکل غیر مؤثر۔ اگر پاکستان نے حقیقی گورننس ریفارم کی طرف جانا ہے تو صرف سیاستدانوں کو نشانہ بنانے سے بات نہیں بنے گی۔ ملک کو بیوروکریسی کے اس خفیہ اور مسلسل طاقتور کردار کا سامنا کرنا ہوگا جو گورننس کی اصل خرابیوں کی جڑ ہے۔ اس کے لیے ضروری ہے کہ ایک منظم عوامی اور سیاسی مہم چلا کر بیوروکریسی کے انتظامی، مالیاتی، اور قانونی اختیارات کو شفافیت، نگرانی اور احتساب کے دائرے میں لایا جائے۔

پاکستانی میڈیا، عوامی دانشور، اور پالیسی سازوں کو اس بیانیے کو ابھارنے کی ضرورت ہے کہ ریاستی مشینری میں سب سے زیادہ طاقتور اور کم جوابدہ طبقہ کون ہے — اور اس کے خلاف مؤثر اور سنجیدہ اصلاحات کے بغیر کوئی بھی سیاسی تبدیلی دیرپا نہیں ہو سکتی۔ بصورتِ دیگر، ہر نئی حکومت محض اسی پرانے، کرپٹ، اور ناقابلِ احتساب ڈھانچے کی کٹھ پتلی بن کر رہ جائے گی۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos