ایڈیٹوریل
پاکستان کا ٹیکس وصولی کا نظام بدترین عدم توازن کا شکار ہے، جو اُن طبقات کو ہی نچوڑ رہا ہے جو پہلے ہی باقاعدگی سے ٹیکس دیتے ہیں، جبکہ ٹیکس نیٹ کو وسعت دینے کی سنجیدہ کوششیں نظر نہیں آتیں۔ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کی ناکامی ہے کہ زراعت، ریئل اسٹیٹ اور دیگر اہم شعبے آج تک ٹیکس نیٹ میں شامل نہیں کیے جا سکے، نتیجتاً تنخواہ دار طبقہ، بینکنگ اور کاروباری طبقہ ملکی خزانے کا بڑا حصہ بھر رہے ہیں۔
تنخواہ دار طبقہ اپنی آمدنی کا 38.5 فیصد حصہ ٹیکس کی صورت میں دیتا ہے، اور اندازے کے مطابق جون 2025 تک یہ طبقہ 500 ارب روپے قومی خزانے میں جمع کرائے گا، جو ٹیکسٹائل اور ریٹیل سیکٹر کے مجموعی حصہ سے بھی زیادہ ہے۔ بدقسمتی سے اس طبقے پر ٹیکس اس کی مجموعی تنخواہ پر لگایا جاتا ہے، جبکہ کاروباری طبقے کو اخراجات منہا کرنے کی سہولت حاصل ہے۔ مزید یہ کہ تنخواہ دار طبقے سے تقریباً تمام ٹیکس ریلیف اور کریڈٹس واپس لے لیے گئے ہیں، جس سے اُن کی مالی مشکلات میں شدید اضافہ ہوا ہے۔ دوسری جانب عدلیہ اور سول و عسکری بیوروکریسی کو بدستور ٹیکس میں چھوٹ حاصل ہے، جو آئین کے آرٹیکل 25 کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
Please subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quaity content:
یہی نہیں، تنخواہ دار طبقہ بھاری ٹیکس دینے کے باوجود صحت، تعلیم اور دیگر بنیادی سہولتوں کے لیے حکومت پر انحصار نہیں کر سکتا کیونکہ سرکاری نظام ناکارہ ہے۔ دنیا بھر میں زیادہ ٹیکس وصولی کے عوض ریاست شہریوں کو سہولتیں فراہم کرتی ہے، لیکن پاکستان میں عوام کے ٹیکس کا بڑا حصہ بیوروکریسی کی عیش و عشرت اور قرضوں کی ادائیگی میں صرف ہوتا ہے۔
حکومت کو چاہیے کہ وہ اس طبقے کو ریلیف فراہم کرے، بصورت دیگر متوسط طبقہ غربت کی لکیر سے نیچے چلا جائے گا۔ تجویز ہے کہ ٹیکس کی کم از کم حد بڑھا کر سالانہ 36 لاکھ روپے یا اس سے زائد آمدنی والوں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جائے تاکہ کم آمدنی والے افراد کو کچھ ریلیف مل سکے۔