ارشد محمود اعوان
حالیہ دنوں عالمی ریٹنگ ایجنسی “موڈیز” نے بھارت اور پاکستان کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی کے ممکنہ معاشی اثرات پر جو تشویش ظاہر کی ہے، وہ ایک سنگین انتباہ ہے۔ اس رپورٹ میں واضح کیا گیا ہے کہ اگر جنگ کے بادل اسی طرح منڈلاتے رہے تو پاکستان کی کمزور معیشت کو سخت نقصان پہنچ سکتا ہے۔
پاکستان پچھلے چند برسوں سے معاشی بحران کا شکار رہا ہے اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے سخت پروگرام کے تحت مالیاتی استحکام کی کوششوں میں مصروف ہے۔ حالیہ مہینوں میں کچھ بہتری دیکھنے کو ملی تھی: زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہوا، مہنگائی کی شرح میں معمولی کمی آئی، اور معاشی اشاریے کچھ حد تک سنبھلنے لگے تھے۔ لیکن بھارت کی جارحانہ پالیسی نے ان تمام کوششوں کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
موڈیز کی رپورٹ میں خبردار کیا گیا ہے کہ اگر کشیدگی میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا تو پاکستان کی معاشی ترقی کا عمل رک سکتا ہے اور مالیاتی اصلاحات کا عمل متاثر ہو سکتا ہے۔ خاص طور پر یہ خدشہ ظاہر کیا گیا ہے کہ پاکستان کی بیرونی مالیاتی رسائی محدود ہو سکتی ہے۔ جب ملک کے برآمدات اور ترسیلاتِ زر کم ہوں تو زرمبادلہ کی کمی اور قرضوں کی ادائیگی کا مسئلہ پیدا ہو جاتا ہے، اور یہی خطرہ اس وقت پاکستان کو درپیش ہے۔
صورتحال اس وقت مزید خراب ہوئی جب بھارت نے پاکستان کی طرف پانی کی فراہمی کو محدود کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور اس کی معیشت بڑی حد تک پانی پر منحصر ہے۔ پانی کی بندش نہ صرف ایک جارحانہ عمل ہے بلکہ یہ ایک خاموش اقتصادی جنگ بھی ہے۔ اس کے علاوہ دونوں ممالک کے درمیان پہلے ہی محدود تجارت کو بھارت نے معطل کر دیا ہے، جس سے پاکستان کی معیشت کو مزید دھچکا لگا ہے۔
موڈیز نے یہ بھی نشاندہی کی ہے کہ ان اقدامات سے پاکستان کی برآمدات اور ترسیلاتِ زر متاثر ہو سکتی ہیں، جو ملک کی معیشت کے دو اہم ستون ہیں۔ اگر ان میں کمی آتی ہے تو پاکستان کے لیے اپنے بیرونی قرضوں کی ادائیگی مشکل ہو جائے گی، جس کا مطلب ایک اور ممکنہ معاشی بحران ہو سکتا ہے۔
Please subscribe to the YouTube channel of reublicpolicy.com for quality content:
دلچسپ بات یہ ہے کہ موڈیز کے مطابق بھارت پر اس کشیدگی کا فوری اثر نہیں پڑے گا۔ بھارت اس وقت معاشی ترقی کے عروج پر ہے اور اس کی معیشت مضبوط عوامی سرمایہ کاری اور گھریلو کھپت کی وجہ سے مستحکم ہے۔ گویا پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی موجودہ حکمت عملی سے بھارت کو فوری طور پر کوئی مالی نقصان نہیں ہو رہا، لیکن طویل مدتی اثرات کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔
بھارت کی یہ جارحانہ حکمت عملی محض سلامتی کے خدشات تک محدود نہیں بلکہ اس کا مقصد پاکستان کو معاشی طور پر کمزور اور تابع بنانا ہے۔ یہ ایک خطرناک کھیل ہے جو نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ ہمسائیگی کے اصولوں کے بھی منافی ہے۔ پاکستان نے کئی بار مذاکرات اور انسداد دہشت گردی کے معاہدوں میں تعاون کی پیشکش کی ہے اور یہاں تک کہ پہلگام حملوں کی غیر جانبدارانہ تحقیقات میں حصہ لینے پر بھی آمادگی ظاہر کی ہے، لیکن بھارت کی جانب سے مسلسل سخت رویہ اپنایا گیا ہے۔
اس سب کے باوجود یہ حقیقت بھی نظر انداز نہیں کی جا سکتی کہ جنگ یا کشیدگی کے نتائج کبھی یکطرفہ نہیں ہوتے۔ اگرچہ بھارت اس وقت معاشی طور پر مضبوط دکھائی دیتا ہے، لیکن جنگی جنون کا نتیجہ طویل المدتی نقصان کی صورت میں نکل سکتا ہے۔ موڈیز نے بھی اس پہلو کی نشاندہی کی ہے کہ دفاعی اخراجات میں اضافہ بھارت کی مالیاتی پوزیشن کو کمزور کر سکتا ہے۔ اس کے علاوہ، اگر صورتحال مزید بگڑتی ہے تو اس کا دائرہ صرف روایتی جنگ تک محدود نہیں رہے گا، اور پاکستان نے واضح طور پر کہا ہے کہ اگر اس کی بقا کو خطرہ لاحق ہوا تو جوابی کارروائی کسی بھی حد تک جا سکتی ہے، بشمول ایٹمی آپشن۔
یہ لمحہ بھارت کے لیے غور و فکر کا ہے۔ اقتصادی طاقت اور فوجی صلاحیت کے زعم میں خطے کو آگ میں جھونکنا دانشمندی نہیں۔ پاکستان کے لیے یہ ایک نازک صورتحال ہے، لیکن اس کے پاس موقع ہے کہ وہ اپنی اندرونی معاشی مضبوطی پر توجہ دے۔ اسے چاہیے کہ تجارتی تعلقات کو متنوع بنائے، نئے معاشی شراکت دار تلاش کرے اور داخلی پیداوار اور زرعی شعبے کو مضبوط کرے تاکہ بیرونی دباؤ کا مقابلہ کیا جا سکے۔
عالمی برادری کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کشیدہ صورتحال کو کم کرنے میں اپنا کردار ادا کرے۔ جنوبی ایشیا میں پائیدار امن صرف خطے کی نہیں بلکہ دنیا کی بھی ضرورت ہے۔
آخر میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ موڈیز کی رپورٹ صرف ایک اقتصادی تجزیہ نہیں بلکہ ایک سخت انتباہ ہے۔ پاکستان کو اپنی معاشی خودمختاری کے لیے سنجیدہ اقدامات کرنے ہوں گے، اور بھارت کو یہ سمجھنا ہو گا کہ طاقت کا استعمال مسئلے کا حل نہیں بلکہ ایک نیا بحران پیدا کر سکتا ہے۔ دونوں ملکوں کو دشمنی کے راستے سے ہٹ کر مفاہمت اور تعاون کی راہ اپنانی ہو گی تاکہ خطہ خوشحالی اور استحکام کی طرف بڑھ سکے۔