کراچی – حکومتِ سندھ اور پنجاب کی جانب سے ہیپاٹائٹس کنٹرول پروگرامز کے بجٹ میں اچانک 30 فیصد کٹوتی کیے جانے پر صحتِ عامہ سے وابستہ ماہرین، سماجی تنظیموں اور متاثرہ مریضوں نے گہری تشویش کا اظہار کیا ہے۔
ہیپاٹائٹس بی اور سی جیسے وائرسز پاکستان میں پہلے ہی ایک خاموش وبا کی صورت اختیار کر چکے ہیں، خاص طور پر دیہی اور پسماندہ علاقوں میں یہ بیماری خطرناک حد تک پھیل چکی ہے۔ طبی ماہرین کے مطابق، ایسے وقت میں جب بیماری کی شرح میں اضافہ ہو رہا ہے، فنڈز میں کمی “ایک انتہائی غیر دانشمندانہ اور عوام دشمن قدم” ہے۔
پبلک ہیلتھ ایسوسی ایشن کے صدر ڈاکٹر ذیشان احمد کا کہنا ہے
“ہیپاٹائٹس کے خلاف جاری پروگرام پہلے ہی محدود وسائل کے ساتھ کام کر رہے تھے۔ بجٹ میں کٹوتی سے متاثرہ افراد کے لیے مفت ٹیسٹ، حفاظتی ٹیکہ کاری اور علاج کی سہولیات مزید محدود ہو جائیں گی، جس سے مریضوں کی تعداد میں اضافہ متوقع ہے۔”
ماہرین نے واضح کیا کہ پاکستان میں سالانہ لاکھوں افراد ہیپاٹائٹس سے متاثر ہو رہے ہیں، جن میں بڑی تعداد ان لوگوں کی ہے جو غیر محفوظ بلڈ ٹرانسفیوژن، آلودہ سرنجوں، اور غیر معیاری حجامت و دندان سازی جیسے عوامل کا شکار ہوتے ہیں۔ اگر موجودہ پروگرامز کو کمزور کیا گیا تو یہ بیماری مزید بگڑ سکتی ہے۔
سماجی کارکنوں کا کہنا ہے کہ بجٹ میں کمی نہ صرف موجودہ مریضوں کے لیے خطرناک ہے بلکہ یہ آگاہی مہمات، حفاظتی ٹیکہ کاری کیمپوں اور دیہی علاقوں تک رسائی جیسے بنیادی اقدامات کو بھی متاثر کرے گی۔
حکومت سے مطالبہ کیا جا رہا ہے کہ وہ اس فیصلے پر فوری نظرِ ثانی کرے اور ہیپاٹائٹس کو قومی صحت کا ایمرجنسی مسئلہ تسلیم کرتے ہوئے اسے ترجیحی بنیادوں پر فنڈ فراہم کرے، تاکہ ایک صحت مند اور محفوظ پاکستان کی بنیاد رکھی جا سکے۔