معافی اور تلافی

[post-views]
[post-views]



بہاولپور کے زندہ ولی مسکرائے،کہنے لگے” رات کو سونے سے قبل اللہ تعالی سے ہر گناہ کی معافی مانگنی چاہیے۔ہرشخص جس سے شکوہ ہے، اس کو دل سے معاف کردینا چاہیے۔ اگر یہ توفیق حاصل ہو جائے تو یقین آ جانا چاہیے کہ اللہ تعالی نے معافی عطا کر دی اور توبہ قبول ہو گئی”۔۔ انہوں نے رخ سخن اپنے پسندیدہ شاگرد کی طرف موڑا، کہنے لگے” ہر کسی کو معاف کرنے کا مطلب یہ ہے کہ بندہ خود کوبھی معاف کر دے ۔روزانہ خود کو معاف کر کے سونا زندہ رہنے کیلیے بہت ضروری ہے۔ حساس لوگوں کو،زیادہ شکوےتواپنی ذات سے ہوتے ہیں”۔ شاگردکے چہرے پر مسکراہٹ آئی۔اسے وہ ہستی یاد آئی جو رات سونے سے پہلے دو رکعت صلوۃ التوبہ ضرور پڑھتی تھی،سب کو معاف کر کے سوتی تھی۔وہ شخص یادآیا جو گورا تھا اور سنہری باتیں کرتا تھا۔ کیا خوبصورت بات کہی۔ “معذرت اور شکریے کے الفاظ ہر وقت پڑھے لکھے آدمی کی زبان پر ہونے چاہیں اور ان کا استعمال بے دریغ کرنا چاہیے”۔ شیطان اگر معافی مانگ لیتا تو کائنات کی تاریخ مختلف ہوتی۔آد م نے معافی مانگ لی اور اللہ تعالی کے پہلے پیغمبر بن گئے۔ غلطی پر اظہار ندامت کرنا شیوہ آدمیت ہے اور اپنی غلطی پر اڑنا شیطانیت۔وہ خاتون بھی یاد آئی جوغلطی کسی کی بھی ہوتی تھی تو معافی مانگ لیتی تھی۔ہنس کر شوہر سے کہتی “اپنی غلطی کی معافی تو سبھی مانگتے ہیں ، محبت تو یہ ہے ، غلطی تم کرو اور معافی میں مانگوں”۔ہر مسلمان کو سیرت نبی ﷺ کا طالب علم ہونا چاہیے ۔ اہل بیت کا اسوہ پیش نظر رکھنا چاہیے ۔ اللہ تعالی کی ذات سے معافی مانگنا انتہائی پسندیدہ عمل ہے۔سورۃ الزمر میں ارشاد کا مفہوم ہے “کہہ دو! اے میرے بندو !جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے، اللہ کی رحمت سے مایوس نہ ہوں، بیشک اللہ تعالی سب گناہوں کو بخش دیتا ہے۔ وہ بخشنے والا مہربان ہے”۔ سورۃ ہود میں فرمایا گیا “تم اپنے رب سے معذرت کرو اور اسی سے مغفرت طلب کرو”۔ سورۃ النحل میں رب کی رحمت جوش پر ہے” جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور نیک عمل کیا، یہ وہ لوگ ہیں جن کے گناہوں کو اللہ تعالی نیکیوں سے بدل دے گا”۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “ایک بندے نے گناہ کیا اور پھر کہنے لگا: اے میرے پروردگار! میں نے گناہ کیا ہے، تو میرے اس گناہ کو بخش دے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: میرا بندہ جانتا ہے کہ اس کا ایک پروردگار ہے جو گناہ کو بخشتا ہے اور اس پر مواخذہ کرتا ہے۔ میں نے اپنے بندے کو بخش دیا”۔
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “جو شخص استغفار کو لازم کر لے، اللہ تعالیٰ اس کے لیے ہر تنگی سے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے، ہر غم سے نجات عطا فرماتا ہے اور اسے ایسی جگہ سے رزق دیتا ہے جہاں سے اس کا گمان بھی نہیں ہوتا”۔ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ‘اے ابنِ آدم! جب تک تُو مجھ سے دعا کرتا رہے گا اور مجھ سے امید رکھے گا، میں تجھے معاف کرتا رہوں گا، چاہے تیرے گناہ آسمان کی بلندیوں تک پہنچ جائیں۔ اے ابنِ آدم! اگر تُو زمین بھر کے گناہوں کے ساتھ میرے پاس آئے، پھر مجھ سے ملاقات کرے اس حال میں کہ تُو نے میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرایا ہو، تو میں تجھے زمین بھر کی مغفرت عطا کروں گا”۔ حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “اللہ تعالیٰ رات کے وقت ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ دن میں گناہ کرنے والا توبہ کرے، اور دن کے وقت ہاتھ پھیلاتا ہے تاکہ رات میں گناہ کرنے والا توبہ کرے، یہاں تک کہ سورج مغرب سے طلوع ہو جائے”۔

Pl, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com


حضرت ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “اے میرے بندو! تم رات دن گناہ کرتے ہو اور میں تمام گناہوں کو بخشتا ہوں، پس مجھ سے مغفرت مانگو، میں تمہیں بخش دوں گا”۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے: نبی کریم ﷺ کثرت سے یہ دعا فرمایا کرتے تھے: “اے اللہ! تُو معاف کرنے والا ہے اور معافی کو پسند کرتا ہے، پس مجھے معاف فرما”۔
حضرت شداد بن اوس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: نبی کریم ﷺ نے فرمایا: “سید الاستغفار یہ ہے کہ بندہ کہے: ‘اے اللہ! تُو میرا رب ہے، تیرے سوا کوئی معبود نہیں، تُو نے مجھے پیدا کیا اور میں تیرا بندہ ہوں، میں اپنی طاقت کے مطابق تیرے عہد اور وعدے پر قائم ہوں، میں نے جو کچھ کیا اس کے شر سے تیری پناہ مانگتا ہوں، اپنے اوپر تیری نعمت کا اقرار کرتا ہوں اور اپنے گناہ کا اعتراف کرتا ہوں، پس مجھے معاف فرما، بے شک تیرے سوا کوئی گناہوں کو معاف نہیں کر سکتا۔’ جو شخص یقین کے ساتھ دن میں اسے پڑھ لے اور اسی دن مر جائے تو وہ جنتی ہے، اور جو رات کو یقین کے ساتھ اسے پڑھ لے اور اسی رات مر جائے تو وہ جنتی ہے”۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: “قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! اگر تم گناہ نہ کرتے تو اللہ تمہیں لے جاتا اور ایسی قوم کو لے آتا جو گناہ کرتی، پھر اللہ سے مغفرت طلب کرتی اور اللہ انہیں معاف فرما دیتا”۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: ہم رسول اللہ ﷺ کی مجلس میں سو مرتبہ یہ کلمات شمار کرتے تھے: “اے میرے رب! مجھے معاف فرما اور میری توبہ قبول فرما، بے شک تُو توبہ قبول کرنے والا، رحم کرنے والا ہے”۔ اسلامی تعلیمات کا خلاصہ ہے ، اگرصدق دل سے توبہ کی جاۓ تو گناہ کی تلافی ہو جاتی ہے۔توبہ “نصوح”جیسی ہونی چاہیے۔نصوح نے ایسی توبہ کی کہ آج تک مثال دی جاتی ہے۔حضرت یونس کی قوم نے توبہ کی تو عذاب ٹال دیا گیا۔ ہمارا معاشرہ عدم برداشت کی وجہ سے مسائل کا شکار ہے۔ایک مفکر کے بقول پہلے ہمارے ہاں جو بات خوش دلی سے برداشت کی جاتی تھی، اب اس پر گالی دی جاتی تھی۔پہلے جس بات پر گالی دی جاتی تھی، اب اس بات پر گو لی مار دی جاتی ہے۔معافی مانگنے کا رواج ختم ہوتا جا رہا ہے۔مذہبی اقدار بھی معاشرے سے عنقا ہوتی جا رہی ہیں۔لوگ اسلامی پیغامات بھیجتے ہیں مگر خود ان پر عمل نہیں کرتے۔ کثرت سے استغفار کرنی چاہیے۔دوسروں کو معاف کرنا چاہیے۔ایک پنجابی شاعر نے کیا خوبصورت بات کہی:-
عدل کریں نہ انصاف کریں
بس معاف کریں توں، مولا معاف کریں
ایمان کی شان یہ ہے کہ بندہ لوگوں کو ایسے معاف کرے جیسے پیغمبر خدا ﷺ معاف کرتے تھے۔ پیغمبر خدا ﷺ کے اسوہ حسنہ پر عمل کرنے میں ہی ہماری نجات ہے۔آخری نبی نے بد ترین دشمنوں کو بھی معاف کیا۔اپنی ذات کے لیے کبھی کسی سے بدلہ نہیں لیا۔آئیے! اسوہ حسنہ پر عمل کرنے کا عہد کریں، اپنی غلطیوں کی تلافی کریں ، اللہ تعالی سے سب کے لیے خیر مانگیں۔ مولانا رومی فرماتے ہیں:
قطرئہ اشکِ ندامت در سجود
ہمسری خون شہادت می نمود
(ندامت کے آنسوؤں کے وہ قطرے جو سجدہ میں گنہگاروں کی آنکھوں سے گرتے ہیں، اتنے قیمتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ان کو شہیدوں کے خون کے برابر وزن کرتی ہے۔)

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos