
“”
منظر نشتر میڈیکل کالج کے کمرے کا تھا۔ دونوں دوست آج بھی اکٹھے تھے۔ ایک ہی شہر سے تھے ۔ ایف ایس سی میں نمبر برابر تھے۔
ایک ہی کالج سے ایم بی بی ایس کر رہے تھے۔ امتحانا ت ہو رہے تھے ۔ اگلا پرچہ دودن بعدتھا۔ ہمارے ہیرو نے، اپنے پڑھاکو دوست، جسے وہ پیار سے خشکا کہتا تھا ، سے پوچھا:- “یار! ذرا مجھے بھی بتا” میں کیا پڑھوں؟” خشکا غورفکر کے لئے مشہور تھا مگر اس موقع پر وہ فی البدیہہ بولا اور خوب بولا
” آپ نفل ہی پڑھو”۔مستقبل کے ڈاکٹر نے دوست کو صائب مشورہ دیا تھا ۔دونوں نشتر آ کر ہم خیال نہیں رہے تھے۔ دونوں کا طرز عمل بالکل مختلف رہا تھا۔ ایک نے ہمیشہ وہ کیا تھا جواسے کرنا چاہیےتھا، دوسرا ہمیشہ وہ کرتا تھا جو وہ کرنا چاہتا تھا۔ ہمارا ہیرو ہر وقت پڑھتا رہتا تھا ۔وہ دنیا کی ہر کتاب پڑھتا تھا،سوائے نصابی کتب کے ۔کبھی ادب کے سمندر میں غوطہ زن ہوتا تو کبھی دقیق فلسفیانہ مسائل سلجھا رہا ہوتا۔ امتحان میں فیل ہو گیا تو اک ہم جماعت نے سمندر کو کوزے میں یو ں بند کیا:- ” آپ کی عظمت کو سلام ، جتنی محنت آپ نے فیل ہونے کے لئے کی، لوگ کہاں کرتے ہیں؟ پورا سال آپ نے نہ کوئی کلاس اٹینڈ کی ،نہ کوئی نصابی کتاب پڑھی، آپ کے جذبے کو سلام ۔ آئندہ بھی یہی طرز عمل اپنائیے گا، مجھے خدشہ ہے اگر آپ نے ایک ہفتہ بھی کلاس اٹینڈ کر لی اور کسی نصابی کتاب کا مطالعہ کر لیا تو آپ پاس ہو جائیں گے”۔ ہمارے معاشرے میں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو ہمارے ہیرو کی طرح ہیں ۔ غریب رہنے کےلیےجتنی محنت کرتے ہیں، اس سے بہت کم محنت کرکےغربت کے دائرے سے نکل سکتے ہیں۔ کئی لوگ تو وہ نہ صرف خود افلاس سے آزاد ہو سکتے ہیں بلکہ اپنے علاقے کی بھی تقدیر بدل سکتے ہیں۔ غریبی کی وجہ بدنصیبی ہوتی ہے یا طبیعت کی بُوالْعَجَبی یا سازش رشتہ دار قریبی؟ قضیہ ہذا کی بابت ہر کسی کو اپنی رائے رکھنے کا حق ہے۔ کالم نگار کا خیال ہے کہ اس بابت عمومی رائے رکھنا مناسب نہیں ۔ ہر شخص کی قسمت اور کہانی مختلف ہوتی ہے۔ جھنگ سے ایک مثال پیش خدمت ہے ایک ہی گھر میں رہنے والے دو بھائی ہم جماعت تھے۔ ایک ڈاکٹر بنا ، دوسرا الیکٹریشن۔ ساہیوال سے بھی ایک کیس ہمارے علم ہے ۔ بڑا بھائی ٹاٹ والے سکول سے پڑھا اور انجنئیر بنا ۔ چھوٹا مہنگے ترین پرائیویٹ سکول سے پڑھا اور چھوٹا بھائی ہی رہا، کچھ نہ بنا ۔ کتنے ہی لوگ چھوٹی موٹی آسائشوں کے سہارے زندگی گزار دیتے ہیں محنت نہیں کرتے۔
خواتین اور بچیاں زیادہ تر ایسے ہی کرتیں ہیں۔ اگرچہ قرۃ العین حیدر کو ہمیشہ یہ افسوس رہا کہ انہوں نے اپنا پتہِ نہیں مارا ، اتنی محنت نہیں کی جتنی کرنی چاہیے تھی۔احساسِ زیاں اس حقیقت سے باوجود ہے ، وہ بہت سے لوگوں کی نظر اردو کی سب سے بڑی ناول نگار ہیں۔ جی ہاں! وہی زبان اردو جس کے شاعر سوال کرتے ہیں :- ” تقدیروں کےموسم میں محنت کتنی کرلوگے؟۔مسئلہ تقدیر پربحث تو علماء کرام کو ہی زیب دیتی ہے،راقم الحروف فقط اتنا جانتا ہے کہ اللہ تعالی نے محنت کرنے میں اجررکھا ہے۔اللہ نے انسان کو دنیا میں بھیجا ہی محنت کرنے کےلیے ہے۔ گورنمنٹ ہائی سکول آدھیوال جھنگ کےاستاد محترم نے اپنے کالم نگار شاگرد کو سالوں پہلے کہا تھا :- “پڑھا کرو ، دل لگا کر پڑھاکرو”۔ آج سر کے اندر کچھ ہو گا تو کل سر کے اوپر تاگاری ( ٹوکری)اٹھانی نہیں پڑے گی “۔ وقت نے ثابت کیا وہ بجا فرماتے تھے ۔ کالم نگار کو بھی گمان تھا کہ امیر لوگ صرف تقدیر کی مہربانی کی بدولت امیر ہوتے ہیں اور ان میں کوئی خوبی نہیں ہوتی ۔وہ محنتی تو بالکل نہیں ہوتے۔ نشتر میڈیکل کالج میں پڑھنے کا موقع ملا تو اپنی گناہ گار آنکھوں سے دیکھا کہ کھاتے پیتے والدین کے بچے ، اڑاتے کم ہیں،کھاتے مناسب ہیں ، پڑھتے زیادہ ہے ، نادار والدین کے سپوت اکثر شہر آکر بھول جاتے ہیں کہ کس کی ماں نے کتنا زیور بیچا تھا ۔ متمول والدین اپنی اولاد کو محنت کی قدروقیمت سیکھاتے ہیں ۔ عموماَََ ان کی اولاد اپنا معیار زندگی برقرار رکھنے کے لیے اور اس میں مزید بہتری کے لیے مزید محنت کرتی ہے۔ جو لوگ اپنا جیون خود بناتے ہیں ، وہ اپنے بچوں سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں ۔ سیفی صاحب کا خیال ہے ” چند لوگ اس لئے غریب ہوتے ہیں کہ وہ غریب رہنے کا انتخاب کرتے ہیں۔ تقدیر انہیں موقع نہیں مواقع دیتی ہے مگر وہ پرواہ نہیں کرتے “۔منیر نیازی نے بالکل بجا فرمایا تھا:-
؎ کُج انج وی راہواں اوکھیاں سَن
کج گَل وچ غم دا طوق وی سی
کج شہر دے لوک وی ظالم سَن
کج سانوں مرن دا شوق وی سی
اگر ہمارے نوجوان جوانی میں محنت کریں ۔ تعلیم حاصل کرنے کا حق ادا کردیں ، ڈگری نہیں ،علم حاصل کریں تو شاید ہمارے ہا ں غربت کا نام و نشان نہ رہے۔ اسلام محنت پسند دین ہے ۔اللہ کے نبی ﷺ تمام عمر محنت کرتے رہے ۔ اہل بیت اور صحابہ کرام کی زندگی محنت اور مشقت سے عبارت ہے ۔ اسلامی قوانین کے ماہرین کا خیال ہےکہ جو افراد محنت کی عظمت کے منکرہیں ان کا اسلام سے کوئی واسطہ نہیں ۔
ایک مرتبہ حضور اکرم ﷺ نے مشہور شاعر عنطارا کو سنا جو شعر پڑھ رہا تھا ” میری نیند کس قدر آرام دہ اور میٹھی ہے اس میں کتنا سرور پیدا ہوتا ہے جب میں سارے دن کی محنت و مشقت کے بعد چور چور ہو جاتا ہوں۔”حضور اکرم ﷺ نے عنطارا کے ان شعروں کو بے انتہا پسند فرمایا۔ اور اس سے ملنے کی خواہش کا اظہار فرمایا۔ اللہ پا ک کا ارشاد ہے ۔ انسان کے لئے کچھ نہیں مگر وہ جس کی اس نے سعی کی ہے۔ اللہ تعالیٰ حکم دیتے ہیں ” کہہ دیجئے ( اے محمد ﷺ) کہ عمل کرکے دکھاؤ اللہ اس کا رسولﷺ اور مومنین تمہارے عمل کا جائزہ لیں گے”۔
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: – “حلال کمائی کی تلاش فرض ہے ، فرض عبادت کے بعد ۔
ایک صحابی نے آپ ﷺسے مصافحہ کیا تو آپ ﷺ نے فرمایا :” تمہارے ہاتھ پر نشانات کیسے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا :۔ “میں پتھر پر پھاوڑا چلاتا اور اس سے اپنے اہل وعیال کے لئے روزی پیدا کرتا ہوں ۔آپ نے ان کےہاتھ چوم لئیے”
حضرت عمر نے فرمایا:۔ کسی مسلمان کو یہ زیبا نہیں کہ تلاش رزق میں بیٹھ جائے اور دعا کرے۔ کہ اے خدا مجھ کو رزق دے، ” کیوں کہ تم کو معلوم ہے کہ آسمان سے سونا چاندی نہیں برستا” ، “تم میں سے کوئی شخص بھی طلب رزق کی جدوجہدمیں پست ہو کر نہ بیٹھ جائے۔
فرمان نبوی کا مفہوم ہے :- ” گناہوںمیں بعض ایسے گنا ہ ہیں کہ جن کا کفارہ صرف طلب معشیت کی فکر اور جدوجہد سے ہو سکتا ہے”۔
کاہلی بدترین گناہ ہے۔ آئیے! اپنے گناہوں کا کفارہ ادا کریں، محنت کریں اپنے لئیے، ملک کے لئیے، قوم کے لئیے ،دنیا کے لئیے، آخرت کے لئیے ، آنے والی نسلوں کے لئیے:-
؎ تحریر بدلتی ہے تقدیر بدلتی ہے
ماحول بدلنے سے تدبیر بدلتی ہے
جب رنگ بدلتا ہے اس چشمِ فسوں گر کا
ہر جرعۂ صہبا کی تاثیر بدلتی ہے
یہ کیا تری نسبت سے ہر شے میں تلون ہے
ہر لمحہ ترے غم کی تصویر بدلتی ہے
ہوتا ہے اک عرصہ تک جب خون تمنا کا
تب خواب محبت کی تعبیر بدلتی ہے
وہ کچھ بھی کہیں لیکن میں خوب سمجھتا ہوں
اک جنبش مژگاں سے تقدیر بدلتی ہے