پاکستان کا ٹیکس نظام: ایک غیر منصفانہ ڈھانچہ جو اصلاحات کا منتظر ہے

[post-views]
[post-views]

ظفر اقبال

عالمی بینک کی جانب سے پاکستان ریزز ریونیو منصوبے کے لیے اضافی 7 کروڑ ڈالر کی امداد مؤخر کرنے کے بعد ایک بار پھر پاکستان کے ٹیکس نظام پر سخت سوالات اٹھائے جا رہے ہیں۔ یہ تاخیر محض ایک مالی رکاوٹ نہیں، بلکہ ہمارے مالیاتی نظام کی بنیادی خامیوں کی عکاسی ہے۔ عالمی بینک اور سرکاری دستاویزات کے مطابق پاکستان کا ٹیکس نظام نہ صرف غیر مؤثر ہے بلکہ غریب مخالف بھی ہے۔ یہ نہ تو خاطر خواہ آمدن پیدا کرتا ہے، نہ معیشت کی درست سمت میں رہنمائی کرتا ہے، اور نہ ہی دولت مندوں کو ان کے حصے کا بوجھ اٹھانے پر مجبور کرتا ہے — جبکہ غریب طبقہ سب سے زیادہ متاثر ہوتا ہے۔

بالواسطہ ٹیکسوں پر حد سے زیادہ انحصار

پاکستان کے ٹیکس نظام کا ایک بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ یہ آمدنی یا دولت پر براہِ راست ٹیکس لگانے کے بجائے صارفین پر بالواسطہ ٹیکس عائد کرتا ہے۔ اس کا مطلب ہے کہ ایک ارب پتی اور ایک مزدور، دونوں ایک ہی شرح سے ٹیکس دیتے ہیں، جیسے خوردنی اشیاء یا توانائی پر۔ چونکہ غریب افراد اپنی آمدنی کا بڑا حصہ بنیادی اشیائے ضرورت پر خرچ کرتے ہیں، اس لیے یہ نظام انہیں غیر متناسب طور پر متاثر کرتا ہے۔

حتیٰ کہ کئی براہِ راست ٹیکس بھی حقیقت میں بالواسطہ ہی بن جاتے ہیں، کیونکہ یہ درآمدات، یوٹیلیٹی بلوں یا ابتدائی مراحل میں وصول کیے جاتے ہیں — اور یہ بوجھ آخرکار صارفین پر منتقل ہو جاتا ہے۔

صارف پر بوجھ، پیداوار پر اثر

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق مالی سال 2019 سے 2024 کے دوران حاصل ہونے والے جنرل سیلز ٹیکس کا 60 فیصد سے زائد حصہ درآمدی مرحلے پر وصول کیا گیا۔ بہت سے براہِ راست ٹیکس بھی اسی طرح جمع کیے گئے۔ رسمی شعبے کی بڑی کمپنیاں ان ٹیکسوں کو اپنی آمدنی سے منہا کر لیتی ہیں، مگر غیر رسمی شعبہ یہ بوجھ صارفین پر منتقل کر دیتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ عام خریدار، جو اکثر مالی لحاظ سے کمزور ہوتا ہے، اصل بوجھ اٹھاتا ہے۔

یہ نظام صرف مہنگائی کو نہیں بڑھاتا بلکہ مقامی مصنوعات کی لاگت میں اضافہ کر کے انہیں عالمی منڈیوں میں غیر مسابقتی بنا دیتا ہے۔

برآمدات میں جمود اور چھوٹے کاروباروں کی مشکلات

پاکستان کی برآمدی کارکردگی مسلسل جمود کا شکار ہے، جس کی ایک بڑی وجہ مقامی پیداواری لاگت میں شامل یہ ٹیکس ہیں۔ بڑی برآمدی کمپنیاں، جنہیں ایف بی آر اور وزیراعظم آفس تک رسائی حاصل ہوتی ہے، وقت پر ریفنڈ حاصل کر لیتی ہیں، جب کہ چھوٹے یا نئے برآمد کنندگان کو پیچیدہ عمل سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس نظام سے نہ صرف ان کا اعتماد مجروح ہوتا ہے بلکہ نئے سرمایہ کار میدان میں آنے سے بھی کتراتے ہیں۔

مہنگائی اور غربت میں اضافہ

جب روزمرہ اشیاء جیسے دودھ پر دنیا کے بلند ترین جی ایس ٹی لگائے جاتے ہیں، تو یہ براہِ راست عوام کو متاثر کرتا ہے۔ تیزی سے فروخت ہونے والی اشیاء پر لگنے والا “سُپر ٹیکس” بھی صارفین تک منتقل کر دیا گیا ہے۔ کمپنیاں اپنا منافع برقرار رکھتی ہیں، مگر عوام کو زیادہ قیمت ادا کرنی پڑتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ مہنگائی بڑھتی ہے، اور غربت میں اضافہ ہوتا ہے۔ آج پاکستان کی تقریباً 44 فیصد آبادی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہی ہے۔

امیر طبقے کو فائدہ، غریب طبقے کو بوجھ

دوسری طرف، امیر شہری اور بڑی کمپنیاں اکثر ٹیکسوں سے بچ نکلتی ہیں۔ انہیں قانون میں موجود سقم، ٹیرف تحفظات، اور کمزور نفاذ سے فائدہ پہنچتا ہے۔ یوں ایک ایسا نظام جنم لیتا ہے جہاں دولت مند مزید مالدار اور غریب مزید پریشان حال ہو جاتا ہے۔ یہ عدم توازن ایک ایسی پالیسی کا نتیجہ ہے جو محنت کش طبقے کے بجائے سرمایہ دار طبقے کو فائدہ دیتی ہے۔

اصلاحات وقت کی ضرورت

اگر پاکستان کو معاشی انصاف اور پائیدار ترقی چاہیے، تو اسے اپنے ٹیکس نظام میں بنیادی تبدیلیاں لانی ہوں گی۔ بالواسطہ ٹیکسوں پر انحصار کم کر کے، آمدنی، سرمایہ، اور زراعت سمیت تمام شعبوں سے یکساں ٹیکس وصولی کو یقینی بنانا ہوگا۔ ساتھ ہی، کارپوریٹ انکم ٹیکس کی شرح کم کر کے سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی کی جا سکتی ہے، جب کہ جی ایس ٹی میں کمی سے صارفین کو ریلیف ملے گا۔

مگر یہ سب اصلاحات سیاسی عزم کے بغیر ممکن نہیں۔ وہ مفادات جو موجودہ نظام سے فائدہ اٹھاتے ہیں، اصلاحات کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں۔

بجٹ 2025-26: ایک اہم موقع

اگلے مالی سال کا بجٹ پاکستان کے لیے ایک نادر موقع ہے۔ مہنگائی میں کمی، عالمی منڈیوں میں قیمتوں کی بہتری، اور عوامی اعتماد میں معمولی بہتری نے حالات کو سازگار بنا دیا ہے۔ حکومت کو اس موقع کو ضائع نہیں کرنا چاہیے۔ دیرینہ ٹیکس اصلاحات اب مزید مؤخر نہیں کی جا سکتیں۔ پاکستان کی معیشت اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک اس کا مالیاتی ڈھانچہ منصفانہ اور متوازن نہ ہو۔

عوام کا اعتماد بحال کرنا، اور معاشی انصاف کو فروغ دینا وقتی سہولتوں سے نہیں، بلکہ جرات مندانہ فیصلوں سے ممکن ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos