مبشر ندیم
پنجاب کا کسان ہمارے ملک کی زرعی معیشت کا ستون ہے۔ وہی ہے جس کی محنت سے کھیتوں میں اناج اُگتا ہے اور ہمارے گھروں تک غذا پہنچتی ہے۔ تاہم، حالیہ دور میں اس کسان کی حالت انتہائی مخدوش اور پریشان کن ہو چکی ہے۔ قیمتوں میں غیر معمولی کمی، بڑھتے ہوئے پیداواری اخراجات، موسمیاتی تبدیلیوں کا اثر، اور ناقص حکومتی پالیسیاں اس کی مشکلات کو بڑھا رہی ہیں، جس کی وجہ سے یہ محنت کش انسان زندگی کی بنیادی ضروریات پوری کرنے میں بھی شدید مشکلات کا شکار ہے۔
ان زرعی مسائل کی جڑ میں سب سے بڑا مسئلہ فصل کی کم قیمت ہے۔ گندم، مکئی اور چاول کی قیمتیں اس حد تک نیچی رہ جاتی ہیں کہ کسان اپنی پیداوار کی قیمت کے برابر بھی اپنی سرمایہ کاری واپس نہیں کر پاتا۔ اس صورتحال کا بنیادی سبب بڑھتے ہوئے بیج، کھاد اور مزدوری کے اخراجات ہیں جو ہر سال بڑھتے جا رہے ہیں، جبکہ فصل کی فروخت سے حاصل ہونے والی آمدنی وہ نہیں جو کسان کے گزر بسر کے لیے ضروری ہے۔ اس سے کسان کا قرض کا بوجھ بڑھتا ہے اور وہ مالی دباؤ کے باعث اپنی زمین یا زرعی وسائل بیچنے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
مزید برآں، موسمیاتی تبدیلیاں جیسے بارش کی غیر یقینی صورتحال، خشک سالی، یا شدید گرمی فصلوں کو نقصان پہنچاتی ہیں اور کسان کی آمدنی کو مزید متاثر کرتی ہیں۔ کسان کو ان قدرتی آفات کے ازالے کے لیے کوئی منظم اور مؤثر مالی امداد نہیں ملتی، جو اس کی پریشانیوں کو اور بڑھا دیتی ہے۔ اس کے علاوہ، حکومتی سطح پر زرعی پالیسیوں میں استحکام کا فقدان، مناسب سبسڈی کا نہ ملنا، اور مارکیٹ میں ذخیرہ اندوزی جیسے مسائل بھی کسانوں کی حالت زار کا سبب بنے ہوئے ہیں۔
یہ تمام عوامل نہ صرف کسان کی ذاتی زندگی کو متاثر کرتے ہیں بلکہ اس کا اثر پورے معاشرے پر پڑتا ہے۔ جب کسان کو مناسب قیمت نہیں ملتی تو اس کی فصل کی قیمتیں کم رہتی ہیں، مگر خوراک کی دیگر اشیاء مہنگی ہو جاتی ہیں جس سے عام آدمی کی زندگی مزید مشکل ہو جاتی ہے۔ اس طرح زرعی شعبہ کی کمزوری ملکی معیشت کے دیگر شعبوں پر بھی منفی اثر ڈالتی ہے اور مہنگائی کا طوفان جنم لیتی ہے۔
اس تناظر میں، پنجاب کے کسانوں کی فلاح و بہبود کے لیے جامع اور مربوط حکمت عملی اپنانا ناگزیر ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ کسانوں کو فصل کی منصفانہ قیمت کی ضمانت دے، پیداواری لاگت کو کم کرنے کے لیے جدید زرعی تکنیک اور معیاری بیج فراہم کرے، اور موسمی خطرات سے بچاؤ کے لیے مؤثر انشورنس اور مالی امداد کے نظام کو مضبوط بنائے۔ اس کے علاوہ، کسانوں کو قرضوں کے بوجھ سے نجات دلانے کے لیے مناسب اور آسان قرضے فراہم کیے جائیں تاکہ وہ اپنے زرعی کاموں کو بہتر طریقے سے جاری رکھ سکیں۔
عوام، پالیسی سازوں اور حکومتی اداروں کی مشترکہ کوشش سے ہی پنجاب کے کسان کی حالت بہتر ہو سکتی ہے۔ اگر ہم اس محنت کش طبقے کو اس کا جائز حق دیں، اس کی مشکلات کو سنجیدگی سے لیں، اور اس کے مسائل کے پائیدار حل تلاش کریں تو نہ صرف کسان خوشحال ہوگا بلکہ ملکی معیشت بھی مستحکم اور ترقی کی راہ پر گامزن ہو گی۔ بصورت دیگر، کسان کی موجودہ حالت ہمیں ایک گہری سماجی اور معاشی بحران کی طرف لے جائے گی جس کے اثرات دیرپا اور وسیع ہوں گے۔