ارشد محمود اعوان
ہر معاشرہ اپنی زبان، رسم الخط اور ثقافتی اقدار کے ذریعے نہ صرف پہچانا جاتا ہے بلکہ انہی عناصر کے ذریعے اس کی تہذیب، روایات اور اجتماعی شعور فروغ پاتا ہے۔ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 251 کے تحت ہر ایسے گروہ کو، جس کی اپنی مخصوص زبان، رسم الخط یا ثقافت ہو، اس کے تحفظ اور فروغ کا حق حاصل ہے، اور وہ اس مقصد کے لیے ادارے قائم کرنے کا قانونی حق بھی رکھتا ہے۔ یہ محض ایک رسمی شق نہیں بلکہ ایک بنیادی حق ہے جس کا تعلق براہِ راست ریاستی سالمیت، سماجی ہم آہنگی اور پائیدار ترقی سے ہے۔
زبان صرف ابلاغ کا ذریعہ نہیں بلکہ ایک پوری تہذیب، فکر اور تاریخ کی نمائندہ ہوتی ہے۔ رسم الخط اور ثقافت کسی بھی قوم کی اجتماعی یادداشت اور روایت کے مظاہر ہیں۔ جب کوئی زبان ختم ہوتی ہے تو صرف الفاظ نہیں مرتے بلکہ ایک مکمل طرزِ فکر اور زندگی کا نکتہ نظر بھی مٹ جاتا ہے۔
پاکستان جیسے کثیرالثقافتی ملک میں، جہاں پنجابی، سندھی، پشتو، بلوچی، سرائیکی، بروہی، ہندکو، شینا، بلتی سمیت کئی زبانیں بولی جاتی ہیں، یہ حق نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ اگر یہ گروہ اپنے تشخص کے تحفظ میں ناکام رہیں یا انہیں نظرانداز کیا جائے تو وہ ریاست سے اجنبیت محسوس کرتے ہیں، جو قومی یکجہتی کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتی ہے۔
زبان اور ثقافت کے تحفظ سے نہ صرف شناخت کا تحفظ ممکن ہوتا ہے بلکہ یہ سماجی ترقی اور استحکام کا بھی ضامن ہوتا ہے۔ تحقیق سے ثابت ہو چکا ہے کہ ابتدائی تعلیم مادری زبان میں دینے سے بچوں کی علمی کارکردگی بہتر ہوتی ہے اور ان میں خود اعتمادی پیدا ہوتی ہے۔
متنوع ثقافتوں کا احترام اور فروغ معاشرے میں رواداری، برداشت اور ہم آہنگی کو فروغ دیتا ہے۔ ایسے معاشرے زیادہ تخلیقی، باشعور اور ترقی کے لیے تیار ہوتے ہیں۔
زبان اور ثقافت کا تحفظ صرف تہذیبی پہلو نہیں بلکہ معیشت سے بھی جڑا ہوا ہے۔ مقامی ثقافت، ہنر، لوک موسیقی، ادبیات اور سیاحت ایسے شعبے ہیں جنہیں فروغ دے کر روزگار پیدا کیا جا سکتا ہے۔ جب لوگ اپنی شناخت پر فخر کرتے ہیں تو وہ اپنے علاقوں میں سرمایہ کاری اور ترقی میں بھرپور حصہ لیتے ہیں۔
اس کے برعکس، اگر کسی قوم کو اس کے ثقافتی حقوق سے محروم رکھا جائے تو وہ احساسِ محرومی کا شکار ہو جاتی ہے، جو انتشار، بداعتمادی اور حتیٰ کہ بغاوت کی صورت اختیار کر سکتی ہے۔
پاکستانی ریاست کے لیے آرٹیکل 251 پر حقیقی معنوں میں عملدرآمد اب ایک قومی ضرورت بن چکی ہے۔ بدقسمتی سے، اب تک اردو اور انگریزی کو ہی تعلیمی و دفتری زبانوں پر فوقیت دی گئی ہے، جبکہ علاقائی زبانوں کو ثانوی حیثیت حاصل ہے۔ اس رویے سے عوام اور ریاست کے درمیان فاصلے پیدا ہوئے ہیں۔
اگر ہم علاقائی زبانوں اور ثقافتوں کو تسلیم کر کے ان کا فروغ ممکن بنائیں تو ہم ایک ایسی قومی شناخت تخلیق کر سکتے ہیں جو تمام طبقات کو باعزت نمائندگی فراہم کرے۔ مثال کے طور پر، نصاب میں مادری زبان کو شامل کیا جا سکتا ہے، سرکاری میڈیا پر علاقائی زبانوں میں مواد نشر کیا جا سکتا ہے، اور مقامی ثقافتی اداروں کی سرپرستی کی جا سکتی ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں ابھی تک کوئی مربوط قومی زبان و ثقافت پالیسی موجود نہیں۔ نہ ہی علاقائی زبانوں اور رسم الخط کے تحفظ کے لیے خاطرخواہ فنڈز یا ادارے موجود ہیں۔ کئی زبانیں معدومی کے خطرے سے دوچار ہیں کیونکہ انہیں ادارہ جاتی معاونت حاصل نہیں۔
ایسی صورتِ حال میں ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف ان حقوق کو تسلیم کرے بلکہ ان کے تحفظ کے لیے عملی اقدامات بھی کرے۔ صوبائی سطح پر پالیسیاں مرتب کر کے، مقامی اداروں کو فنڈنگ فراہم کر کے، اور تعلیمی و تحقیقی شعبوں کو اس میں شامل کر کے ان زبانوں اور ثقافتوں کا تحفظ ممکن بنایا جا سکتا ہے۔
پاکستان کی بقا اور ترقی کا راستہ اسی وقت ممکن ہے جب ہم اپنی ثقافتی و لسانی تنوع کو اثاثہ سمجھیں، مسئلہ نہیں۔ زبان، رسم الخط اور ثقافت کا تحفظ قوم پرستی کا نہیں، بلکہ شراکتی ریاستی نظم کا تقاضا ہے۔ جب تمام گروہ خود کو ریاست کے اندر باوقار محسوس کریں گے تو ان کی شراکت بھی بڑھے گی اور ملک مضبوط ہوگا۔
اب وقت آ گیا ہے کہ پارلیمنٹ ایک جامع قومی پالیسی منظور کرے، صوبوں کو بااختیار بنایا جائے، اور سول سوسائٹی، تعلیمی اداروں اور مقامی کمیونٹیز کو اس عمل میں شامل کیا جائے۔ یہی راستہ پاکستان کو ایک متحد، مضبوط اور خوشحال ریاست بنانے کا ضامن ہے۔
#زبان_کا_تحفظ #ثقافتی_تنوع #آرٹیکل251 #پاکستانی_شناخت #مادری_زبان