پنجاب کا بجٹ، کسانوں کی مایوسی

[post-views]
[post-views]

پنجاب کے بجٹ 2025-26 پر مختلف کسان تنظیموں نے شدید مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے مطالبہ کیا ہے کہ حکومت زرعی قرضوں یا مشینری پر اعانت دینے کے بجائے فصلوں کی منصفانہ قیمتوں کو ترجیح دے۔

فارمرز ایسوسی ایٹ آف پاکستان کے ڈائریکٹر اور ترقی پسند کسان الرحمٰن نے کہا کہ قرضے اسی وقت فائدہ مند ہوں گے جب کسان اپنی پیداوار منافع بخش قیمت پر فروخت کر سکیں۔ بصورت دیگر یہ قرضے مالی بوجھ بن جاتے ہیں۔

کسان اتحاد پاکستان کے مرکزی صدر خالد حسین نے بھی بجٹ پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ کسانوں کو بین الاقوامی منڈیوں تک رسائی دلانا ضروری ہے تاکہ انہیں اپنی محنت کا بہتر معاوضہ مل سکے۔ انہوں نے کہا: “ہم بارہا حکومت سے کہہ چکے ہیں، ہمیں قرض نہیں، اپنی فصلوں کی اچھی قیمتیں چاہئیں۔”

کسانوں کا مؤقف ہے کہ ٹریکٹر، سولر پینلز اور زرعی مشینری پر امدادی رقم فائدہ مند ہو سکتی ہے، مگر جب تک کاشتکاری منافع بخش نہیں بنائی جاتی، یہ اقدامات محض نمائشی رہتے ہیں۔

الرحمٰن کے مطابق گزشتہ دو برسوں میں صرف گندم پر کسانوں کو 2,000 ارب روپے سے زائد کا نقصان ہوا۔ مکئی کی فصل بھی موسمیاتی تبدیلی اور قیمتوں میں اتار چڑھاؤ کی نذر ہوئی، مگر حکومت نے مارکیٹنگ یا منافع کے مسائل حل کرنے کے بجائے زرعی آمدن پر ٹیکس لگانے کا عندیہ دیا۔

انہوں نے مزید کہا کہ زرعی شعبے کے لیے صرف 80 ارب روپے مختص کیے گئے، جبکہ الیکٹرک بسوں کے لیے 150 ارب روپے رکھے گئے، جو ظاہر کرتا ہے کہ زرعی شعبے کو ترجیحات میں شامل نہیں کیا گیا۔

‘الیکٹرانک ویئر ہاؤس رسید’ اسکیم پر بھی کوئی واضح پالیسی پیش نہیں کی گئی۔

خالد حسین نے کہا کہ کسانوں کو پچھلے دو سالوں میں گندم، مکئی، چاول اور سبزیوں کی فصلوں میں بھاری نقصان ہوا، اور اب بھی بیشتر کسان مالی نقصان سے باہر نہیں نکل سکے۔

کسان رہنماؤں نے واضح کیا کہ جب تک حکومت مارکیٹ تک رسائی، قیمتوں میں استحکام اور منافع کو یقینی نہیں بناتی، زرعی شعبہ قرض یا اعانت سے ترقی نہیں کر سکے گا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos