عائشہ خان کی رحلت — معاشرتی بے حسی کا عکس

[post-views]
[post-views]

کچھ چہرے صرف پردۂ اسکرین پر دکھائی نہیں دیتے، وہ ہمارے اجتماعی لاشعور کا حصہ بن جاتے ہیں۔ ایسے چہرے جو دہائیوں تک ہماری مسکراہٹوں، آنسوؤں اور جذبات کی زبان بنتے ہیں، ان کی موجودگی محض فنکارانہ نہیں بلکہ تہذیبی حیثیت رکھتی ہے۔ عائشہ خان بھی انہی نادر شخصیات میں شامل تھیں، جنہوں نے پاکستانی ڈرامہ انڈسٹری کو وقار، نفاست اور فنی سنجیدگی بخشی۔ مگر ان کا اختتام بھی اسی تلخ روایت کا تسلسل تھا، جہاں فنکار اپنی عمر کے آخری حصے میں گمنامی، کمپرسی اور سماجی لا تعلقی کا شکار ہو جاتے ہیں۔

فنکار زندگی بھر دوسروں کے جذبات کی ترجمانی کرتا ہے، لیکن جب وہ خود زندگی کے کمزور ترین مرحلے میں داخل ہوتا ہے، تو معاشرہ اسے نظر انداز کر دیتا ہے۔ شہرت کی چکاچوند مدھم ہوتے ہی، وہی فنکار جو برسوں تک ہر دل کی دھڑکن رہا، خاموشی سے اپنے گوشے میں سمٹ جاتا ہے، اور رفتہ رفتہ فراموشی کے قبرستان میں دفن ہو جاتا ہے۔

ہمارے معاشرے میں فنکار کی قدر اُس کے کام کی مقبولیت سے جڑی ہوتی ہے، اُس کے تخلیقی سفر، قربانی، یا سماجی کردار سے نہیں۔ جیسے ہی وہ کیمرے سے ہٹتا ہے، اُس کی اہمیت کم ہونے لگتی ہے۔ بڑھاپے میں فنکار نہ صرف جسمانی طور پر کمزور ہوتا ہے بلکہ سماجی طور پر بھی غیر متعلقہ سمجھا جاتا ہے۔ یہی کیفیت اکثر انہیں معاشی مشکلات، ذہنی تنہائی اور جذباتی محرومی کی طرف لے جاتی ہے۔

عائشہ خان کی وفات محض ایک فنکارہ کے رخصت ہونے کا واقعہ نہیں، یہ ایک سوال ہے جو ہم سب کے ضمیر پر دستک دیتا ہے۔ کیا ہم نے کبھی سوچا کہ وہ لوگ جنہوں نے ہماری ثقافت کو زبان دی، ہمارے احساسات کو رنگ دیے، وہ بڑھاپے میں کس حال میں ہوتے ہیں؟ کیا ریاست، ادارے، اور ہم بطور معاشرہ، اُن کے لیے کوئی ایسا نظام بنا سکے ہیں جہاں وہ وقار اور تحفظ کے ساتھ اپنی زندگی کے آخری ایام گزار سکیں؟

یہ حقیقت بھی تلخ ہے کہ فنکاروں کے لیے کوئی پائیدار فلاحی نظام موجود نہیں۔ اکثر وہ بیماری، مالی پریشانی یا تنہائی میں مبتلا ہو کر اس دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں، اور ان کی خدمات صرف چند سطری خراجِ عقیدت میں سمیٹ دی جاتی ہیں۔ نہ کوئی یادگار، نہ کوئی محفوظ مستقبل، نہ کوئی اجتماعی احساسِ تشکر۔

عائشہ خان کی گمشدگی ہمیں یاد دلاتی ہے کہ ہمیں بطور قوم اپنے فنکاروں کو زندہ رہتے ہوئے عزت دینی ہے، نہ کہ صرف مرنے کے بعد سوشل میڈیا پر دکھ کا اظہار کر کے فرض پورا کرنا ہے۔ اگر ہم اپنے تہذیبی معماروں کو نظر انداز کرتے رہے، تو درحقیقت ہم اپنے فن، اپنے ورثے، اور اپنی شناخت کو مٹا رہے ہیں۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم فنکاروں کے لیے ادارہ جاتی تحفظ، سماجی عزت، اور ذہنی سکون کے ایسے راستے بنائیں جو صرف وقتی ہمدردی پر مبنی نہ ہوں، بلکہ دیرپا اور باعزت ہوں۔ تبھی شاید ہم عائشہ خان جیسے فنکاروں کے سامنے سر اٹھا کر کہہ سکیں کہ ہم نے ان کے فن کی قیمت پہچانی، اور ان کے وجود کی قدر کی۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos