پاکستان میں آڈٹ اصلاحات کیوں ضروری ہیں؟ شفاف مالی نظم و نسق کا نیا باب

[post-views]
[post-views]

زاہد علی

پاکستان میں مالیاتی احتساب اور شفافیت کے قیام کے لیے آڈٹ کا نظام بنیادی حیثیت رکھتا ہے۔ آئینی طور پر آڈیٹر جنرل آف پاکستان کا دفتر وفاق اور صوبوں کی مالی نگرانی کا ذمہ دار ہے، تاہم موجودہ آڈٹ نظام کئی انتظامی تضادات اور ساختی کمزوریوں کا شکار ہے۔ اگر آڈٹ نظام کو میرٹ، خودمختاری اور پیشہ ورانہ مہارت کی بنیاد پر ازسرنو منظم کیا جائے، تو نہ صرف قومی وسائل کا بہتر استعمال ممکن ہو گا بلکہ حکومتی کارکردگی میں بھی انقلابی بہتری آ سکتی ہے۔

فی الحال پاکستان آڈٹ اینڈ اکاؤنٹس سروس آڈٹ اور اکاؤنٹس دونوں کی ذمہ داریوں کو بیک وقت انجام دیتی ہے۔ یہ دوہرا کردار ایک سنگین تضادِ مفاد پیدا کرتا ہے۔ جب ایک ہی ادارہ مالی ریکارڈ تیار کرے اور پھر خود اس کا آڈٹ بھی کرے، تو غیر جانب داری ممکن نہیں رہتی۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ آڈٹ اور اکاؤنٹس کے شعبوں کو مکمل طور پر علیحدہ کر کے آزاد آڈٹ سروس قائم کی جائے جو صرف اور صرف مالی نگرانی پر مامور ہو۔

آڈٹ ایک عام دفتری کارگزاری نہیں بلکہ ایک پیشہ ورانہ اور تخصص طلب عمل ہے۔ موجودہ نظام میں افسران کو آڈٹ اور اکاؤنٹس دونوں شعبوں میں ادل بدل سے کام دیا جاتا ہے، جس سے کسی بھی شعبے میں گہرائی اور مہارت پیدا نہیں ہوتی۔ اگر ایک مخصوص اور ماہر آڈٹ سروس بنائی جائے، جس میں مالیات، اکاؤنٹنگ اور پبلک فنانس کے ماہرین بھرتی ہوں، تو آڈٹ رپورٹس نہ صرف زیادہ مؤثر ہوں گی بلکہ پالیسی سازی میں بھی رہنمائی فراہم کریں گی۔

اس کے ساتھ ساتھ آڈٹ نظام کی ڈیجیٹلائزیشن بھی ناگزیر ہے۔ روایتی، کاغذی آڈٹ نظام وقت طلب، غیر مؤثر اور دھاندلی کے امکانات سے بھرپور ہوتا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی کے استعمال سے نہ صرف آڈٹ کی رفتار بڑھے گی بلکہ شفافیت بھی قائم ہوگی۔ مگر اس کے لیے آڈٹ افسران کو جدید سافٹ ویئرز، ڈیٹا اینالیسز اور مالیاتی نگرانی کے نئے اصولوں کی تربیت دینا ہوگی۔

Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality content.

یہ بھی ضروری ہے کہ آڈٹ رپورٹس کو پالیسی سازی کا حصہ بنایا جائے۔ اکثر اوقات آڈٹ رپورٹس تیار تو ہوتی ہیں مگر ان پر کوئی عملی کارروائی نہیں ہوتی۔ اس خاموشی کا خاتمہ ضروری ہے۔ قومی و صوبائی سطح پر پبلک اکاؤنٹس کمیٹیوں کو مزید بااختیار اور خودمختار بنایا جائے، تاکہ آڈٹ رپورٹس پر عمل درآمد یقینی بنایا جا سکے۔ مزید یہ کہ ان رپورٹس کو عوامی سطح پر جاری کیا جائے تاکہ میڈیا، سول سوسائٹی اور عوامی نمائندے احتساب کے عمل میں اپنا کردار ادا کر سکیں۔

پاکستان کو اس وقت مالی خسارے، قرضوں کے بوجھ، اور کمزور عوامی خدمات جیسے سنگین چیلنجز کا سامنا ہے۔ ان مسائل کا حل صرف اور صرف ایک مؤثر، آزاد، اور تخصص یافتہ آڈٹ نظام میں مضمر ہے۔ ایسا نظام جو حکومتی اخراجات کی نہ صرف نگرانی کرے بلکہ وقت پر نشاندہی، تجزیہ اور اصلاحی اقدامات بھی تجویز کرے۔

آگے بڑھنے کے لیے حکومت کو درج ذیل اقدامات فوری طور پر کرنے چاہئیں

آڈٹ اور اکاؤنٹس کو علیحدہ کیا جائے تاکہ تضادِ مفاد کا خاتمہ ہو۔

ایک خصوصی آڈٹ سروس قائم کی جائے جس میں صرف پیشہ ور ماہرین ہوں۔

آڈیٹر جنرل کے دفتر کو مکمل خودمختاری اور آئینی تحفظ دیا جائے۔

آڈٹ نظام کو ڈیجیٹل اور جدید آلات سے آراستہ کیا جائے۔

پبلک اکاؤنٹس کمیٹیوں کو مزید مؤثر اور بااختیار بنایا جائے۔

آڈٹ رپورٹس کو عوام کے سامنے شائع کیا جائے تاکہ شفافیت قائم ہو۔

آخر میں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ آڈٹ کوئی رسمی کارروائی نہیں بلکہ جمہوری طرزِ حکمرانی کا ایک بنیادی ستون ہے۔ جب تک آڈٹ نظام کو باقاعدہ اصلاحات کے تحت ازسرنو منظم نہیں کیا جاتا، تب تک نہ بدعنوانی پر قابو پایا جا سکتا ہے اور نہ ہی وسائل کا مؤثر استعمال ممکن ہے۔ پاکستان کو فوری طور پر آڈٹ کو اپنی اصلاحاتی حکمتِ عملی کا مرکز بنانا ہوگا تاکہ ایک شفاف، جوابدہ اور ترقی یافتہ ریاست کا خواب شرمندہ تعبیر ہو سکے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos