ٹرمپ کا جنگ بندی کا دعویٰ مشرق وسطیٰ کی سفارت کاری کو نقصان پہنچا سکتا ہے

[post-views]
[post-views]

ریپبلک پالیسی اداریہ

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران اور اسرائیل کے درمیان “مکمل اور جامع جنگ بندی” کے اعلان نے واضح امن کی فضا پیدا کرنے کے بجائے زیادہ الجھن پیدا کر دی ہے۔ نہ تہران نے اس اعلان کی تصدیق کی ہے، نہ تل ابیب نے، اور میدان جنگ میں تاحال فوجی کارروائیاں جاری ہیں۔ ایسے میں ٹرمپ کا یہ دعویٰ سنجیدہ سفارتی کوششوں کے بجائے محض ایک سیاسی مظاہرہ محسوس ہوتا ہے۔

اس اعلان کا فوری اثر خطے میں جاری سفارتی کوششوں میں خلل کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ قطر، ترکی، عمان اور پاکستان جیسے ممالک بحران کو سلجھانے اور کشیدگی کم کرنے میں مصروف ہیں۔ ایسے میں بغیر تصدیق کے ٹرمپ کا یکطرفہ اعلان ان کوششوں کو متاثر کرتا ہے۔ یہ بیان نہ صرف سفارتی فضاء کو خراب کرتا ہے بلکہ امن قائم کرنے کی حقیقی کاوشوں کو بھی کمزور کرتا ہے۔

subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality content.

دوسری طرف، یہ خطرہ بھی موجود ہے کہ اسرائیل اس بیان کو بنیاد بنا کر مزید کارروائیاں کرے گا، جبکہ ایران، جو اب بھی بمباری کا نشانہ بن رہا ہے، اسے اشتعال انگیزی سمجھے گا۔ اس عدم توازن سے تنازع مزید شدت اختیار کر سکتا ہے۔

علامتی طور پر، ٹرمپ خود کو ایک امن پسند رہنما کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، لیکن مشرق وسطیٰ جیسے حساس خطے میں صرف بیانات کافی نہیں ہوتے۔ یہاں سفارت کاری سچائی، باہمی رضامندی، اور زمینی حقائق پر مبنی ہونی چاہیے—جو کہ اس اعلان میں موجود نہیں۔

پاکستان اور مسلم دنیا کے لیے یہ لمحہ سوچنے کا ہے کہ علاقائی سفارت کاری کی قیادت خود سنبھالی جائے۔ غیر علاقائی قوتوں کی غیر مستقل پالیسیوں پر انحصار نقصان دہ ہو سکتا ہے۔

ٹرمپ کا یہ دعویٰ سرخیوں میں تو جگہ پا سکتا ہے، لیکن امن کے لیے عملی اقدامات کی جگہ نہیں لے سکتا۔ خطے کو سنجیدہ، مربوط اور قابلِ بھروسہ سفارت کاری کی ضرورت ہے، نہ کہ سیاسی تماشوں کی۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos