ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ بندی نے خطے میں ایک وسیع اور تباہ کن جنگ کو روک دیا ہے، لیکن اب عالمی برادری کو اپنی سفارتی توجہ غزہ میں جاری مظالم کے خاتمے پر مرکوز کرنی چاہیے۔ اسرائیل کی جانب سے ایران پر حملے کے بعد کے 12 دنوں میں دنیا نے سانس روکے یہ منظر دیکھا، کیونکہ کسی بھی قسم کی شدت عالمی سیاسی و معاشی نظام کو ہلا کر رکھ سکتی تھی۔
ایران کے خلاف حملے کے باوجود، اسرائیل نے غزہ میں فوجی کارروائیاں بغیر کسی وقفے کے جاری رکھیں۔ مئی کے آخر سے اب تک 500 سے زائد فلسطینی شہید ہو چکے ہیں، جن میں سے کئی وہ افراد تھے جو شدید بھوک کے عالم میں کھانے کے لیے لائن میں لگے ہوئے تھے۔ اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے ترجمان کے مطابق: “اسرائیلی فوج کو کھانا حاصل کرنے کی کوشش کرنے والوں پر فائرنگ بند کرنی چاہیے۔”
ہیگ میں نیٹو اجلاس کے دوران امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ غزہ میں جنگ بندی کے حوالے سے “اہم پیشرفت” ہوئی ہے۔ تاہم، ان بیانات کو احتیاط سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ 7 اکتوبر 2023 کے بعد سے اسرائیل کی جانب سے غزہ پر مسلسل حملوں کے باعث ہر امن کوشش ناکام ہوئی ہے۔ حماس کے حملے کو جواز بنا کر اسرائیل نے پورے غزہ میں اجتماعی سزا اور نسلی تطہیر کی مہم شروع کر رکھی ہے۔
اسرائیل کے مغربی اتحادیوں کا دوہرا معیار واضح ہے۔ جو لوگ ایران میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر آواز اٹھاتے ہیں، وہ فلسطینیوں کے ساتھ ہونے والے مظالم پر یا تو خاموش ہیں یا ان کا ساتھ دے رہے ہیں۔ یہ رویہ نہ صرف منافقت پر مبنی ہے بلکہ اخلاقی دیوالیہ پن کا عکاس بھی ہے۔
صدر ٹرمپ نے ایران کے ساتھ جنگ بندی کی خلاف ورزی پر اسرائیل پر کھل کر تنقید کی ہے، مگر وہی صاف گوئی غزہ کے معاملے میں بھی دکھانی چاہیے۔ ایران-اسرائیل جنگ بندی نے ثابت کیا ہے کہ جب امریکہ سنجیدہ دباؤ ڈالتا ہے تو اسرائیل پیچھے ہٹتا ہے۔ یہ جنگ بندی اس لیے بھی جلد ممکن ہو سکی کیونکہ عالمی برادری کو خدشہ تھا کہ ایران آبنائے ہرمز بند کر دے گا، جس سے عالمی معیشت کو شدید دھچکا لگ سکتا تھا۔
تاہم، جب بات فلسطینی عوام کے قتل عام کی ہو، تو دنیا کی طاقتور قوتیں صرف رسمی بیانات پر اکتفا کرتی ہیں۔ غزہ میں بھوکے بچوں اور نہتے شہریوں کی تکلیف پر یہ بے حسی ناقابلِ قبول ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ مغربی طاقتیں، خاص طور پر امریکہ، اسرائیل پر مستقل جنگ بندی کے لیے دباؤ ڈالیں اور مقبوضہ فلسطینی علاقوں میں ہونے والے جنگی جرائم کے ذمے داران کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔ انصاف کے عالمی اصول صرف سیاسی مفادات کے تابع نہیں ہونے چاہئیں۔