روس نے طالبان حکومت کو باضابطہ تسلیم کرلیا — افغانستان کے ساتھ سفارتی تعلقات میں نیا موڑ

[post-views]
[post-views]

روس نے افغانستان میں طالبان کی حکومت کے مقرر کردہ نئے سفیر کی اسناد قبول کرتے ہوئے دنیا کی پہلی ریاست بننے کا اعزاز حاصل کرلیا ہے جس نے طالبان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کیا ہے۔ روسی وزارتِ خارجہ نے جمعرات کو جاری کردہ بیان میں کہا کہ ’’اسلامی امارتِ افغانستان کی حکومت کو باضابطہ طور پر تسلیم کرنا ہمارے دو طرفہ تعلقات کے فروغ کے لیے ایک مؤثر قدم ثابت ہوگا۔‘‘

افغان وزیرِ خارجہ امیر خان متقی نے اس فیصلے کو ’’دلیرانہ‘‘ قرار دیا اور کہا کہ ’’اب جب کہ تسلیم کرنے کا عمل شروع ہو چکا ہے، روس سب سے آگے ہے۔ یہ فیصلہ دوسرے ممالک کے لیے بھی ایک مثال بنے گا۔‘‘

اس فیصلے پر امریکہ اور دیگر مغربی قوتوں کی جانب سے گہری نظر رکھی جا رہی ہے، کیونکہ امریکہ نے طالبان قیادت پر پابندیاں عائد کر رکھی ہیں اور افغان مرکزی بینک کے اربوں ڈالر منجمد کر دیے ہیں، جس کے باعث افغانستان کا بینکاری نظام عالمی مالیاتی نظام سے کٹ چکا ہے۔

طالبان نے اگست 2021 میں اُس وقت اقتدار سنبھالا جب امریکہ اور اتحادی افواج ملک سے انخلاء کر رہی تھیں۔ اُس وقت سے اب تک طالبان کی حکومت کو کسی بھی ملک یا بین الاقوامی ادارے نے باضابطہ طور پر تسلیم نہیں کیا تھا، حالانکہ اقوامِ متحدہ اور بعض علاقائی ریاستیں طالبان کو کے طور پر تسلیم کرتی رہی ہیں۔

روس نے طالبان کے ساتھ تعلقات کی بحالی کی راہ میں کئی اقدامات کیے ہیں۔ طالبان کے وفود 2022 اور 2024 میں سینٹ پیٹرزبرگ اقتصادی فورم میں شرکت کر چکے ہیں، اور روسی وزیرِ خارجہ سرگئی لاوروف سے متعدد بار اعلیٰ سطحی ملاقاتیں ہو چکی ہیں۔ صدر ولادیمیر پیوٹن نے طالبان کو ’’دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اتحادی‘‘ قرار دیا، خاص طور پر داعش خراسان کے خلاف جس نے افغانستان اور روس دونوں میں مہلک حملے کیے ہیں۔

روسی سپریم کورٹ نے اپریل 2025 میں طالبان کو ’’دہشت گرد تنظیم‘‘ کی فہرست سے نکال دیا، اور وزیرِ خارجہ لاوروف نے کہا کہ ’’کابل میں نئی حکومت ایک حقیقت ہے، ہمیں اس سے نظریاتی نہیں بلکہ عملی پالیسی اپنانی چاہیے۔‘‘

روس کا یہ فیصلہ سیاسی کے ساتھ ساتھ معاشی مقاصد بھی رکھتا ہے۔ روس افغانستان کو جنوب مشرقی ایشیا کے لیے گیس کی ترسیل کا مرکز بنانا چاہتا ہے اور طالبان حکومت کے قیام کے فوراً بعد کابل میں کاروباری نمائندہ دفتر کھولنے والا پہلا ملک بھی بن چکا ہے۔

اب دنیا یہ دیکھنے کے لیے بے تاب ہے کہ آیا دیگر ممالک بھی روس کے نقشِ قدم پر چلیں گے یا ماسکو نے تنہا ایک نیا سفارتی میدان چُنا ہے۔ بہرحال، روس کا یہ قدم طالبان کی عالمی سطح پر تسلیم کیے جانے کی کوششوں کو نئی جان بخشے گا اور علاقائی طاقتوں کے درمیان اثر و رسوخ کی نئی دوڑ کا آغاز کرے گا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos