اگرچہ اسرائیل کے ہاتھوں غزہ میں ہزاروں افراد کو بے دردی سے قتل کیا جا چکا ہے اور لاکھوں افراد بھوک، بمباری اور محاصرے کا شکار ہیں، اقوامِ متحدہ کوئی مؤثر عملی قدم اٹھانے میں مکمل ناکام رہی ہے۔ اس تناظر میں اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب، جناب آصف افتخار احمد نے سلامتی کونسل سے اپیل کی ہے کہ وہ ’’تماشائی‘‘ کا کردار ادا نہ کرے۔ اُن کا کہنا تھا کہ اگر سلامتی کونسل اپنی ہی قراردادوں پر عمل درآمد نہ کروا سکے تو اس کی ساکھ اور اختیار خود ہی مجروح ہو جاتا ہے۔
غزہ کی صورتحال محض ایک واقعہ نہیں، بلکہ عالمی سطح پر اقوامِ متحدہ کی مسلسل ناکامیوں کی ایک کڑی ہے۔ چاہے یوکرین کی جنگ ہو، بھارت کی طرف سے پاکستان پر حملہ، یا اسرائیل کی حالیہ ایرانی سرزمین پر جارحیت—ہر موقع پر اقوامِ متحدہ غیر مؤثر اور بے اختیار نظر آئی ہے۔ یہ صورتحال اس بات کا ثبوت ہے کہ دوسری جنگِ عظیم کے بعد قائم کیا گیا ’’قوانین پر مبنی عالمی نظام‘‘ اب دم توڑ چکا ہے، اور اس تباہی کے ذمہ دار بڑی طاقتیں، خاص طور پر امریکہ اور اس کے یورپی اتحادی ہیں۔
امریکہ بارہا اقوامِ متحدہ میں اسرائیل کے خلاف قراردادوں کو ویٹو کر چکا ہے، جس کی وجہ سے عالمی برادری کوئی مؤثر قدم نہیں اٹھا سکی۔ جب طاقتور ممالک اپنے حلیفوں کو بچاتے ہیں، چاہے وہ کتنے ہی سنگین جرائم کے مرتکب کیوں نہ ہوں، تو اقوامِ متحدہ جیسے ادارے محض رسمی رہ جاتے ہیں۔
Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com
اگر عالمی نظام کو بچانا ہے تو قوانین سب پر یکساں لاگو ہونے چاہئیں۔ جارح ممالک کو سزا اور مظلوم اقوام کو تحفظ دینا ضروری ہے۔ اگر روس کا یوکرین پر حملہ ’’آزاد دنیا‘‘ پر حملہ سمجھا جاتا ہے، تو فلسطین پر اسرائیلی قبضے کو نظر انداز کرنا سراسر منافقت ہے، جو عالمی نظام کو مفلوج کرنے کی اصل وجہ ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ایک نیا عالمی نظام تشکیل دیا جائے جو انصاف، برابری، اور انسانیت کی اقدار پر مبنی ہو۔ ایسا نظام جہاں طاقتور ممالک کمزور ریاستوں کو دبانے کے قابل نہ ہوں، اور جہاں عالمی جنوب کو بھی فیصلہ سازی میں برابر کی شرکت حاصل ہو۔
فی الحال عالمی برادری کی سب سے بڑی ذمہ داری یہ ہے کہ غزہ میں جاری قتل و غارت گری کو فوراً روکا جائے۔ وہاں کی تباہی، بھوک، اور بمباری کا خاتمہ کیا جائے، اور مظلوموں کو انصاف فراہم کیا جائے۔ بصورت دیگر اقوامِ متحدہ کا وجود محض ایک نمائشی ادارہ رہ جائے گا جس کی کوئی عملی حیثیت نہیں ہوگی۔ عالمی امیدوں کو زندہ رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ اب اقوامِ متحدہ الفاظ نہیں بلکہ عمل کے ذریعے جواب دے۔