پاکستان میں ماورائے عدالت ہلاکتوں کی عوامی حمایت — نظامِ انصاف کی ناکامی کا عکاس

[post-views]
[post-views]

طارق محمود اعوان

پنجاب میں کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کے قیام اور اس کی فعالیت کے بعد ایک نئی اور سنجیدہ قومی بحث نے جنم لیا ہے۔ اس ادارے کا مقصد صوبہ میں سنگین جرائم جیسے کہ قتل، اغوا برائے تاوان، جنسی زیادتی، ڈکیتی اور منشیات کے نیٹ ورک کو ختم کرنا ہے۔ تاہم، اس محکمے کی کارکردگی کے ساتھ ساتھ ماورائے عدالت پولیس مقابلوں میں ملوث ہونے کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں، اور افسوسناک طور پر، ان کارروائیوں پر عوام کی جانب سے حمایت کا رجحان بھی دیکھنے کو ملا ہے۔ اس رجحان کی بنیاد پر ہمیں بطور ریاست اور معاشرہ یہ سوال ضرور اٹھانا ہوگا کہ آیا یہ حمایت کسی مثبت عمل کی عکاس ہے، یا نظامِ انصاف کی مکمل ناکامی کا اعلان ہے ۔

جب کسی ریاست کا شہری اپنے تحفظ کے لیے عدالت کی جانب دیکھنے کے بجائے پولیس مقابلوں پر اطمینان کا اظہار کرے، تو یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے۔ عوام کی جانب سے ایسے واقعات کو ’فوری انصاف‘ کے طور پر سراہنا دراصل اس نظامِ انصاف پر عدم اعتماد کی علامت ہے، جو سالوں میں بھی مجرموں کو قرار واقعی سزا دینے سے قاصر ہے۔ ایک عام شہری جب یہ دیکھتا ہے کہ ایک قاتل یا جنسی درندہ برسوں عدالت میں پیش ہوتا ہے مگر کبھی سزا نہیں پاتا، یا ضمانت پر رہائی پا کر دوبارہ وہی جرائم کرتا ہے، تو وہ عدالت کے بجائے گولی کو انصاف سمجھنے لگتا ہے۔ یہ نہ صرف قانونی اصولوں کے خلاف ہے بلکہ معاشرتی بگاڑ کا پیش خیمہ بھی ہے۔

پاکستان کا موجودہ نظامِ انصاف کئی پرتوں میں ناکامی کا شکار ہے۔ سب سے پہلا مرحلہ یعنی پولیس تفتیش، اس وقت جدید سائنسی تقاضوں سے کوسوں دور ہے۔ جرائم کی تحقیقات کے لیے نہ تو مناسب تربیت یافتہ عملہ موجود ہے، نہ فرانزک سہولیات عام ہیں، اور نہ ہی گواہوں کے تحفظ کا کوئی قابلِ اعتماد نظام موجود ہے۔ اس کے نتیجے میں مقدمات کی بنیاد ہی کمزور پڑتی ہے۔ اگر ابتدائی تحقیق ہی ناقص ہو تو مجرم کے خلاف مقدمہ کھڑا کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔

Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality content.

دوسرا اہم پہلو استغاثہ کا ہے۔ سرکاری وکیل یا پراسی کیوٹرز اکثر محدود وسائل، سیاسی دباؤ اور پیشہ ورانہ تربیت کے فقدان کے باعث مؤثر انداز میں مقدمات کی پیروی نہیں کر پاتے۔ ان کی کارکردگی کا دارومدار تفتیشی افسر کے ساتھ ہم آہنگی اور مقدمے کی تیاری پر ہوتا ہے، جو بدقسمتی سے اکثر مواقع پر ناپید ہوتی ہے۔

اس کے بعد عدالتی نظام کی باری آتی ہے، جو بے پناہ مقدمات کی بھرمار، ججوں کی قلت، انتظامی مسائل اور پرانے طریقہ کار کی وجہ سے شدید تاخیر کا شکار ہے۔ عام فوجداری مقدمے کو فیصل ہونے میں کئی سال لگ جاتے ہیں۔ ایسے میں نہ صرف انصاف تاخیر کا شکار ہوتا ہے بلکہ اکثر اوقات متاثرین کو مکمل طور پر انصاف سے محروم بھی کر دیتا ہے۔

یہ صورتِ حال عوامی ذہنیت کو اس نہج پر لے آئی ہے کہ وہ فوری نتائج کے لیے قانون کے تقاضے پسِ پشت ڈالنے کو تیار ہو گئے ہیں۔ ماورائے عدالت ہلاکتوں کو وہ اس لیے جائز سمجھتے ہیں کیونکہ انہیں ریاستی اداروں سے انصاف کی کوئی امید باقی نہیں رہی۔ لیکن یہ رویہ نہ صرف آئینِ پاکستان کی روح کے خلاف ہے بلکہ اسلامی اصولِ عدل کی بھی صریحاً نفی ہے، جس میں ہر شخص کو مکمل سماعت اور دفاع کا حق حاصل ہے۔

کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ جیسے ادارے، اگرچہ جرائم کے انسداد کے لیے قائم کیے گئے ہیں، مگر ان کی کارروائیوں میں قانون کی مکمل پاسداری لازمی ہے۔ اگر ایسے ادارے ریاستی قانون کو نظر انداز کر کے محض نتائج پر مبنی اقدامات کرتے ہیں، تو یہ عمل وقتی طور پر مجرموں کو ختم تو کر سکتا ہے، مگر انصاف کے مستقل، پائیدار اور قابلِ اعتماد نظام کو مزید کھوکھلا کر دیتا ہے۔

اس مسئلے کا مستقل حل صرف قانونی اصلاحات میں ہے۔ ہمیں پولیس کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہوگا، تحقیقاتی عملے کو تربیت دینا ہوگی، اور فرانزک سہولیات ہر ضلع کی سطح پر فراہم کرنی ہوں گی۔ ساتھ ہی استغاثہ کے شعبے کو خودمختار، باصلاحیت اور وسائل سے مالا مال بنانا ہوگا تاکہ وہ تفتیشی اداروں کے ساتھ مل کر مضبوط مقدمات عدالتوں میں پیش کر سکیں۔ عدلیہ کی سطح پر مقدمات کے جلد فیصلوں کے لیے خصوصی عدالتوں کا قیام، عدالتی عملے کی تربیت اور جدید نظامِ کار متعارف کرانا ضروری ہے۔

مزید برآں، عوامی شعور کو اجاگر کرنا بھی ریاست کی ذمہ داری ہے۔ شہریوں کو یہ آگاہی دی جائے کہ قانون سے بالاتر کوئی کارروائی کبھی دیرپا انصاف فراہم نہیں کر سکتی۔ ریاست کا فرض ہے کہ وہ ہر شہری کو انصاف کی فراہمی کی ضمانت دے، اور اس کے لیے کسی ادارے کو ماورائے قانون کارروائی کی اجازت نہ دے۔

آخر میں یہی کہا جا سکتا ہے کہ اگر ریاست میں انصاف کی کرسی کمزور ہو جائے، تو بندوق کا سہارا لینا فطری رویہ بن جاتا ہے۔ لیکن ایک مہذب، باوقار اور آئینی ریاست کا مستقبل بندوق کی گولی سے نہیں بلکہ عدلیہ کے فیصلے سے وابستہ ہوتا ہے۔ ہمیں فوری نہیں، پائیدار انصاف چاہیے—اور وہ صرف قانون کی بالادستی سے ممکن ہے۔ پاکستان کو ایک منصفانہ، بااعتماد اور مؤثر نظامِ انصاف کی اشد ضرورت ہے، جو ہر شہری کو تحفظ، انصاف اور وقار فراہم کر سکے۔ یہی راستہ حقیقی ترقی اور پائیدار امن کی طرف لے جائے گا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos