ٹرمپ کا دباؤ، نیتن یاہو کا انکار

[post-views]
[post-views]

امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے چوبیس گھنٹوں کے دوران دوسری بار اسرائیلی وزیر اعظم نیتن یاہو سے وائٹ ہاؤس میں ملاقات کی، جس کا مقصد غزہ میں ممکنہ جنگ بندی پر تبادلہ خیال کرنا تھا۔ منگل کی شام ہونے والی یہ غیر اعلانیہ ملاقات تقریباً ایک گھنٹے جاری رہی، جس میں میڈیا کو رسائی نہیں دی گئی۔ اس دوران اسرائیلی فوج کے حملوں میں کم از کم 95 فلسطینی جاں بحق ہو چکے تھے۔

صدر ٹرمپ نے ملاقات سے قبل کہا کہ وہ غزہ کے مسئلے پر “تقریباً مکمل طور پر” بات چیت کریں گے۔ انہوں نے کہا: “ہمیں یہ معاملہ حل کرنا ہے، غزہ ایک المیہ ہے، اور ہم سب اسے ختم کرنا چاہتے ہیں۔”

واشنگٹن میں اس ملاقات کے بارے میں بہت کم معلومات سامنے آئی ہیں، جو اس بات کی علامت ہو سکتی ہے کہ مذاکرات میں کوئی رکاوٹ یا غیر یقینی صورت حال موجود ہے۔

ٹرمپ کے مشرق وسطیٰ کے خصوصی ایلچی، اسٹیو وٹکوف، نے ملاقات سے کچھ دیر قبل دعویٰ کیا تھا کہ جنگ بندی کا معاہدہ قریب ہے اور امید ہے کہ ہفتے کے آخر تک یہ معاہدہ طے پا جائے گا۔ ان کے مطابق اب صرف ایک نکتہ اختلافی رہ گیا ہے، جبکہ پہلے چار تھے۔ اس معاہدے کے تحت 60 دن کی جنگ بندی، 10 زندہ اور 9 جاں بحق یرغمالیوں کی رہائی شامل ہو گی۔

تاہم، نیتن یاہو نے بعد ازاں کہا کہ اسرائیل کا مشن ابھی مکمل نہیں ہوا اور وہ غزہ میں حماس کی مکمل عسکری اور حکومتی صلاحیتوں کو تباہ کرنا چاہتے ہیں۔ انہوں نے واضح کیا کہ جنگ بندی کی بات چیت جاری ہے لیکن اسرائیل اپنے مقاصد سے پیچھے نہیں ہٹے گا۔

اسرائیلی ذرائع ابلاغ کے مطابق نیتن یاہو پر صدر ٹرمپ کی جانب سے شدید دباؤ ہے کہ وہ جنگ بندی کے معاہدے پر دستخط کریں، لیکن اسرائیلی وزیر دفاع کے ایک منصوبے نے اس دباؤ کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ اس منصوبے کے مطابق جنوبی غزہ کے شہر رفح میں ایک بڑا خیمہ شہر قائم کیا جائے گا جہاں فلسطینیوں کو جمع کیا جائے گا، ان کی نقل و حرکت محدود کی جائے گی اور بالآخر انہیں غزہ سے بے دخل کر دیا جائے گا۔

اس منصوبے کو انسانی حقوق کے کارکنان اور تجزیہ کار جبری نقل مکانی اور انسانی المیے سے تعبیر کر رہے ہیں۔ کوئنسی انسٹیٹیوٹ کی محققہ اینیل شیلائن نے اس منصوبے کو “کونسن ٹریشن کیمپس” سے تشبیہ دی ہے اور کہا ہے کہ ٹرمپ انتظامیہ شاید اس منصوبے کی مخالفت نہ کرے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اگر امریکہ اس منصوبے کی اجازت دیتا ہے یا خاموش رہتا ہے تو یہ بین الاقوامی قوانین کی سنگین خلاف ورزی اور انسانیت کے خلاف جرم تصور ہو گا۔

دوسری جانب صدر ٹرمپ مسلسل نیتن یاہو کی حمایت کرتے رہے ہیں، حتیٰ کہ انہوں نے اسرائیلی وزیر اعظم کے خلاف کرپشن مقدمات میں پراسیکیوٹرز پر تنقید بھی کی۔ نیتن یاہو نے بھی ٹرمپ کو “اسرائیل کا بہترین دوست” قرار دیتے ہوئے نوبیل انعام کے لیے نامزد کیا ہے۔

غزہ کی صورت حال بدترین انسانی بحران اختیار کر چکی ہے۔ اکتوبر 2023 سے شروع ہونے والے اسرائیلی حملوں میں اب تک 57,575 فلسطینی شہید اور 136,879 زخمی ہو چکے ہیں۔ اقوام متحدہ کے مطابق تقریباً پانچ لاکھ افراد قحط کے خطرے سے دوچار ہیں، اور بیشتر آبادی بے گھر ہو چکی ہے۔

اس کے برعکس، 7 اکتوبر کے حملوں میں 1,139 اسرائیلی ہلاک اور 200 سے زائد یرغمال بنائے گئے۔ اب بھی 50 کے قریب یرغمالی غزہ میں موجود ہیں جن میں سے 20 زندہ ہونے کا امکان ہے۔

یہ ملاقاتیں اس بات کی علامت ہیں کہ امریکہ اور اسرائیل کے درمیان ایک طرف سفارتی کوششیں جاری ہیں، تو دوسری جانب اسرائیل کی زمینی حکمت عملی ان مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ بن رہی ہے۔ دنیا کی نظریں اس وقت ان مذاکرات پر لگی ہوئی ہیں، کیونکہ ان کے نتائج صرف غزہ کے مستقبل ہی کو نہیں بلکہ مشرق وسطیٰ میں امریکہ کے کردار کو بھی نئی شکل دے سکتے ہیں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos