آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی تازہ رپورٹ نے پاکستان کرکٹ بورڈ (پی سی بی) کی مالی سال 2023-24 کی کارکردگی پر سنگین سوالات اٹھا دیے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پی سی بی میں چھ ارب روپے سے زائد کی مالی بے ضابطگیاں کی گئی ہیں جن میں غیر مجاز ادائیگیاں، مشکوک تقرریاں، اور قواعد و ضوابط کے خلاف معاہدے شامل ہیں۔ یہ انکشافات ادارے میں مالی نظم، شفافیت اور احتساب کے فقدان کو واضح کرتے ہیں۔
رپورٹ کے مطابق چیئرمین پی سی بی کو فروری 2024 سے جون 2024 کے درمیان 41 لاکھ 70 ہزار روپے کی ادائیگیاں کی گئیں جن میں یوٹیلیٹی بل، ایندھن اور رہائش کے اخراجات شامل تھے۔ اگرچہ چیئرمین اس وقت وفاقی وزیر داخلہ بھی تھے، اور انہیں یہ سہولیات سرکاری طور پر حاصل تھیں، لیکن آڈٹ رپورٹ کے مطابق پی سی بی کی جانب سے ان اخراجات کی ادائیگی غیر قانونی تھی۔ پی سی بی نے ان ادائیگیوں کو اپنے بائی لاز کے مطابق درست قرار دیا، تاہم آڈیٹر جنرل نے ان دلائل کو تسلیم نہیں کیا اور رقم کی واپسی کی سفارش کی۔
میڈیا ڈائریکٹر کی تقرری بھی رپورٹ میں ایک سنگین بے ضابطگی کے طور پر سامنے آئی۔ آڈٹ رپورٹ کے مطابق یہ تقرری 9 لاکھ روپے ماہانہ تنخواہ پر اکتوبر 2023 میں کی گئی، اور حیران کن طور پر درخواست، منظوری، معاہدے پر دستخط اور دفتر جوائن کرنے کی تمام کارروائی ایک ہی دن مکمل کی گئی۔ یہ عمل شفاف تقرری کے تمام اصولوں کی خلاف ورزی ہے، جس پر محکمانہ اکاؤنٹس کمیٹی نے مکمل تحقیقات کا حکم دیا ہے۔
ایک اور بے قاعدگی میں پی سی بی نے بین الاقوامی میچوں کے دوران پولیس اہلکاروں کو کھانے کی مد میں 6 کروڑ 33 لاکھ روپے ادا کیے۔ پی سی بی کا مؤقف تھا کہ غیر ملکی ٹیموں کو وی وی آئی پی سی کیورٹی فراہم کی جاتی ہے جس کے لیے پولیس کی بھاری نفری تعینات کی جاتی ہے، اور اس کے کھانے کے اخراجات پی سی بی پر ڈالے گئے۔ آڈٹ رپورٹ نے اس دلیل کو مسترد کرتے ہوئے کہا کہ سی کیورٹی فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے، نہ کہ پی سی بی کی۔
رپورٹ میں کراچی کے لیے انڈر-16 کرکٹ کوچز کی تقرریوں پر بھی سوالات اٹھائے گئے۔ تین کوچز کو بھرتی کرتے وقت اہلیت کے معیار کو نظر انداز کیا گیا، جس پر 54 لاکھ روپے کے اخراجات ہوئے۔ آڈٹ نے اس پر بھی تحقیقاتی انکوائری کی سفارش کی ہے تاکہ ذمہ داران کا تعین کیا جا سکے۔
رپورٹ میں مزید مالی بے ضابطگیوں کی تفصیل بھی دی گئی ہے۔ ان میں بغیر ٹینڈر کے ٹکٹ کنٹریکٹ کی الاٹمنٹ، میچ آفی شلز کو زائد ادائیگی، غیر ضروری ٹرانسپورٹ کی خدمات حاصل کرنا، بلٹ پروف گاڑیوں کے لیے پنجاب حکومت کے فراہم کردہ ڈیزل کا استعمال، بغیر مقابلے کے سفری معاہدے کی الاٹمنٹ، میڈیا رائٹس کی کم قیمت پر فروخت، فرضی لیز پر دفتر کا کرایہ دینا، بغیر ٹینڈر انٹرنیشنل براڈکاسٹنگ رائٹس کی الاٹمنٹ، اور اسپانسرشپ کی مد میں واجب الادا پانچ ارب تیس کروڑ روپے کی رقم کی عدم وصولی شامل ہیں۔
پی سی بی کے موجودہ میڈیا ڈائریکٹر نے ان بے ضابطگیوں کی ذمہ داری سابق چیئرمینز پر ڈالتے ہوئے کہا کہ یہ تمام معاملات موجودہ چیئرمین محسن نقوی کے دور سے پہلے کے ہیں۔ انہوں نے مشورہ دیا کہ ان سابقہ عہدیداروں سے موقف لیا جائے۔
ان انکشافات نے ایک بار پھر یہ ثابت کر دیا ہے کہ پی سی بی جیسے بڑے ادارے میں شفافیت اور احتساب کے لیے سخت اصلاحات ناگزیر ہو چکی ہیں۔ اگر ان بے ضابطگیوں پر بروقت کارروائی نہ کی گئی تو عوام کا ادارے پر اعتماد مزید متزلزل ہو گا، اور یہ رپورٹ بھی ماضی کی دیگر رپورٹوں کی طرح فائلوں میں دفن ہو کر رہ جائے گی۔













