مبشر ندیم
پاکستان میں اس وقت آبادی کا اندازہ تقریباً چوبیس کروڑ سے زائد ہے، جن میں سے دو تہائی افراد کی عمر تیس برس سے کم ہے۔ ایسے میں یہ سوچنا فطری ہے کہ قومی پالیسیوں کا مرکز عوام کی ترقی، تعلیم، صحت اور روزگار ہونا چاہیے۔ مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ پاکستان میں انسانی ترقی جیسے بنیادی مسائل کو ہمیشہ نظرانداز کیا گیا ہے۔
تعلیم، صحت، غربت، پانی، نکاسی، روزگار اور صنفی برابری جیسے مسائل کی صورت حال دن بہ دن خراب ہو رہی ہے۔ حالیہ قومی بجٹ میں بھی، جہاں معیشت، قرضوں اور مالیاتی خسارے پر توجہ دی گئی، وہیں صحت، تعلیم اور فلاحی تحفظ کے لیے مختص رقم انتہائی کم رکھی گئی، جس پر نہ تو پارلیمنٹ میں سنجیدہ بحث ہوئی اور نہ ہی ذرائع ابلاغ نے اس پر خاطر خواہ توجہ دی۔
ترقیاتی اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پاکستان خطے کے کئی ممالک سے پیچھے ہے۔ شرح خواندگی میں بہتری کے بجائے جمود نظر آتا ہے۔ لاکھوں بچے اسکولوں سے باہر ہیں، اور جو بچے تعلیم حاصل کر رہے ہیں، ان کی کارکردگی بنیادی معیار پر بھی پوری نہیں اترتی۔ دیہی علاقوں میں سرکاری اسکولوں کی حالت ناگفتہ بہ ہے، اساتذہ کی کمی، سہولیات کا فقدان اور ناقص معیار تعلیم ایک مستقل مسئلہ بن چکا ہے۔
صحت کے شعبے کی صورتحال اس سے بھی زیادہ تشویش ناک ہے۔ حکومت کا مجموعی قومی آمدن میں سے صحت کے لیے مختص حصہ بین الاقوامی معیار سے کئی گنا کم ہے۔ بچوں اور ماؤں کی اموات کی شرح خطرناک حد تک بلند ہے۔ صاف پانی، نکاسی اور بنیادی طبی سہولیات خاص طور پر دیہی علاقوں میں بدترین حالت میں ہیں۔ حالیہ عالمی وبا نے ہمارے صحت کے نظام کی کمزوریوں کو مزید نمایاں کر دیا ہے، جو اب بھی مکمل بحالی سے دور ہے۔
غربت، بے روزگاری اور مہنگائی نے عام آدمی کی زندگی کو شدید متاثر کیا ہے۔ اشیائے خور و نوش اور ایندھن کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں، جس کا بوجھ محنت کش طبقے اور دیہی آبادی پر زیادہ پڑ رہا ہے۔ سوشل تحفظ کے کچھ عارضی پروگراموں کے باوجود، ملک کی ایک بڑی آبادی اب بھی غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
خواتین کے مسائل بھی انسانی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہیں۔ محنت کے شعبے میں خواتین کی شراکت محدود ہے، تعلیم کے میدان میں پیچھے ہیں، اور تشدد کے واقعات عام ہونے کے باوجود اکثر رپورٹ نہیں ہوتے۔ لڑکیوں کی تعلیم دیہی اور پسماندہ علاقوں میں خاص طور پر نظرانداز کی جا رہی ہے۔
قومی سیاست اور ذرائع ابلاغ میں انسانی ترقی کے ان مسائل پر سنجیدہ بحث ناپید ہے۔ سیاسی جماعتیں انتخابی مہم میں تعلیم و صحت کا وعدہ ضرور کرتی ہیں، مگر حکومت میں آ کر یہ وعدے کہیں گم ہو جاتے ہیں۔ ذرائع ابلاغ زیادہ تر سنسنی خیز موضوعات میں الجھا رہتا ہے، جب کہ اسکولوں کی بدحالی، ہسپتالوں کی زبوں حالی اور بچوں کی غذائی کمی جیسے بنیادی مسائل پس منظر میں چلے جاتے ہیں۔
یہ صرف حکومتی ناکامی نہیں بلکہ اجتماعی بے حسی کا اظہار ہے۔ کوئی بھی ملک پائیدار ترقی، جمہوری استحکام یا عالمی سطح پر عزت حاصل نہیں کر سکتا، جب تک وہ اپنے لوگوں کی فلاح اور بہتری کو مرکز نہ بنائے۔ انسانی ترقی کسی ریاستی عیاشی کا نام نہیں بلکہ ہر ترقی یافتہ معاشرے کی بنیاد ہوتی ہے۔
اب وقت آ گیا ہے کہ ریاست اپنی ترجیحات پر نظر ثانی کرے۔ سماجی خدمات پر خرچ میں نمایاں اضافہ کیا جائے اور وسائل کی منصفانہ تقسیم کو یقینی بنایا جائے۔ اساتذہ، طبی عملے، مقامی صحت کارکنوں اور بنیادی ڈھانچے پر سرمایہ کاری کو ترقیاتی حکمت عملی کا حصہ بنایا جائے۔ ہر پالیسی اعداد و شمار کی بنیاد پر بنے، اس کا مؤثر جائزہ لیا جائے، اور سیاسی مداخلت سے آزاد ہو۔
میڈیا، جامعات، تحقیقی ادارے اور پالیسی فورم ایک مثبت کردار ادا کر سکتے ہیں۔ عوام کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے منتخب نمائندوں سے سوال کریں کہ تعلیم، صحت اور فلاح کو انتخابی وعدے کے بجائے ریاستی ذمے داری کے طور پر کیوں نہیں دیکھا جاتا۔
پاکستان میں انسانی ترقی کا بحران صرف معاشی نہیں بلکہ اخلاقی بحران بھی ہے۔ ایک قوم کی اصل طاقت اس کے شہریوں کی فلاح میں ہوتی ہے۔ اگر ہم نے اس حقیقت کو نظرانداز کیا تو اس کا خمیازہ وہ ہوگا جسے ہم مزید برداشت نہیں کر سکتے۔













