افسران کی پوسٹنگ برائے فروخت: عثمان بزدار دور کا متنازعہ ورثہ

[post-views]
[post-views]

پنجاب میں گزشتہ تین دہائیوں کے دوران مختلف سیاسی حکومتوں نے بیوروکریسی پر اثر انداز ہونے کی کوشش ضرور کی، تاہم عمومی طور پر ایک غیر تحریری ضابطہ اخلاق رائج رہا جس نے تعیناتیاں اور ٹرانسفرز کو کسی حد تک شفاف اور میرٹ پر قائم رکھا۔ چاہے پاکستان مسلم لیگ (ن) کی مرکزیت پسند حکومت ہو، پاکستان پیپلز پارٹی کا محدود دورِ اقتدار ہو، ق لیگ کی اتحادی حکومت ہو یا فوجی آمریت کا زمانہ، انتظامی سطح پر مالی لین دین کھلے عام اور منظم انداز میں کبھی روایت نہیں بنی۔

تاہم، پاکستان تحریک انصاف کے دور حکومت، بالخصوص سردار عثمان بزدار کی بطور وزیر اعلیٰ پنجاب تعیناتی کے بعد، صوبے کے انتظامی ڈھانچے میں ایک نئی اور افسوسناک تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ پہلی بار بیوروکریسی کے حساس اور کلیدی عہدے، مثلاً اسسٹنٹ کمشنر، ڈپٹی کمشنر اور سیکریٹریز کی تعیناتیاں مالی مفادات سے وابستہ کر دی گئیں۔ مختلف تعیناتی کے لیے باقاعدہ نرخ طے کیے گئے، اور ان کے حصول کے لیے ایجنٹس اور بروکرز کا ایک غیر رسمی نیٹ ورک سرگرم ہو گیا۔

اس کرپٹ نظام سے سب سے زیادہ فائدہ اٹھانے والا طبقہ مبینہ طور پر وہ لینڈ ڈویلپرز اور کاروباری گروہ تھے جو زمینوں کے کاروبار سے منسلک تھے۔ ان کے مفادات کے تحفظ کے لیے ایسے افسران تعینات کیے گئے جو ان کے منصوبوں کو انتظامی اور قانونی تحفظ فراہم کرتے رہے۔ اس عمل نے نہ صرف بیوروکریسی کی ساکھ کو نقصان پہنچایا بلکہ صوبے کی مجموعی گورننس کو بھی بری طرح متاثر کیا۔

Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality content.

عثمان بزدار کا دور اس حوالے سے منفرد اور متنازعہ رہا کہ اس میں سیاسی مداخلت کو ایک منظم مالی کرپشن کے سانچے میں ڈھال دیا گیا۔ وہ افسران جنہیں سروس ڈیلیوری بہتر بنانے کے لیے تعینات کیا جانا چاہیے تھا، وہ مخصوص تجارتی گروہوں کے مفادات کے محافظ بن کر رہ گئے۔ سول سیکریٹریٹ اور دیگر محکمے اقربا پروری، گروپ بندی اور مالی مفادات کے دباؤ کا شکار ہو گئے۔

یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ بزدار دور نے پنجاب کی بیوروکریسی کو ایک ایسے موڑ پر لا کھڑا کیا جہاں میرٹ، شفافیت اور ادارہ جاتی وقار کی جگہ ذاتی مفادات، مالی مفاہمت اور سیاسی دباؤ نے لے لی۔ اگرچہ مریم نواز کے حالیہ دورِ حکومت میں تعیناتیاں مکمل طور پر میرٹ پر نہیں ہو رہیں، تاہم ایک بات واضح ہے کہ کم از کم پوسٹنگز کی قیمتیں نہیں لگ رہیں، جو کسی حد تک مثبت پیش رفت ہے۔

پنجاب کا بیوروکریٹک نظام اب صرف ایک انتظامی یا اخلاقی مسئلہ نہیں رہا بلکہ ایک ریاستی اور سیاسی چیلنج بن چکا ہے۔ اگر مستقبل میں کسی بھی حکومت کو ایک فعال، غیر جانبدار اور مؤثر بیوروکریسی قائم کرنی ہے تو اسے عثمان بزدار دور کی روش سے سبق سیکھنا ہوگا۔ اس کے لیے واضح پالیسی، شفافیت، ادارہ جاتی تحفظ اور سیاسی عزم ناگزیر ہیں، ورنہ بیوروکریسی کبھی بھی عوامی مفاد کے بجائے مخصوص مفادات کی خدمت میں لگی رہے گی۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos