دل بند، در بند – انسانیت کی شکست

[post-views]
[post-views]

معاشرے کی اصل روح قربانی، ہمدردی، ایثار اور باہمی تعاون پر قائم ہوتی ہے۔ لیکن افسوس کہ آج ہمارا معاشرہ جس طرف بڑھ رہا ہے، وہاں ان اقدار کا وجود کمزور پڑتا جا رہا ہے۔ ان اقدار کی جگہ اب خودغرضی، مفاد پرستی اور انفرادی سوچ نے لے لی ہے، اور یہی رجحان ایک خطرناک اجتماعی المیے کی صورت اختیار کر چکا ہے۔

خودغرضی: ایک رویہ یا وبا؟

خودغرضی صرف ایک فرد کا منفی رویہ نہیں، بلکہ جب یہ اجتماعی طور پر قبولیت حاصل کرلے، تو یہ ایک اخلاقی بیماری بن جاتی ہے جو پورے معاشرے کو کھوکھلا کر دیتی ہے۔ جب ہر شخص صرف اپنی ذات، اپنے مفاد، اپنی کامیابی، اور اپنی آسائش کو ہی سب کچھ سمجھنے لگے، تو اس کے نتائج صرف فرد تک محدود نہیں رہتے — پورا معاشرہ اس سے متاثر ہوتا ہے۔

اجتماعی ذمہ داری کا فقدان

آج ہم دیکھتے ہیں کہ سڑک پر پڑا زخمی تڑپ رہا ہوتا ہے مگر لوگ ویڈیو بنانے میں مصروف ہوتے ہیں؛ کوئی مظلوم انصاف کے لیے فریاد کرتا ہے مگر ہم “یہ ہمارا مسئلہ نہیں” کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ یہ سب اس اجتماعی ضمیر کے مرنے کی نشانیاں ہیں جو کبھی کسی کی تکلیف کو اپنی تکلیف سمجھتا تھا۔ اب ہمیں صرف وہی مسئلہ “اہم” لگتا ہے جو ہمیں یا ہمارے مفاد کو متاثر کرتا ہے۔

خودغرضی اور رشتے

خودغرضی نے صرف سماج کو نہیں، بلکہ خاندانی نظام کو بھی متاثر کیا ہے۔ والدین بچوں پر سرمایہ کاری سمجھ کر خرچ کرتے ہیں، بچے والدین کو بوجھ سمجھنے لگے ہیں، بہن بھائی جائیداد پر جھگڑتے ہیں، اور دوستیاں مفاد کی بنیاد پر قائم کی جاتی ہیں۔ یہ سب اسی ذہنیت کا نتیجہ ہے جس میں “میں” کا دائرہ “ہم” پر حاوی ہو گیا ہے۔

مذہبی اور اخلاقی تناظر

اسلام سمیت تمام مذاہب نے قربانی، اخوت، اور ایثار کی تلقین کی ہے۔ قرآن کہتا ہے:
“اور وہ اپنی جانوں پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ خود کتنی ہی سخت حاجت میں ہوں” (سورۃ الحشر: 9)

لیکن آج کا مسلمان دوسرے مسلمان کے لیے نرم نہیں، بلکہ خود غرضی اور تعصب سے بھرا ہوا ہے۔ ہم عبادات میں تو آگے ہیں، مگر معاشرتی اخلاقیات میں پیچھے۔

نتائج: عدم برداشت اور نفرت کا معاشرہ

خودغرضی کے بڑھتے ہوئے رجحان کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ہمارا معاشرہ عدم برداشت، نفرت، حسد، اور بدگمانی کا گڑھ بن چکا ہے۔ جہاں لوگ صرف اپنی کامیابی سے خوش اور دوسروں کی ناکامی سے مطمئن ہوتے ہیں۔ ایسے معاشرے میں باہمی اعتماد ختم ہو جاتا ہے اور فساد، بدعنوانی، اور ناانصافی پروان چڑھتی ہے۔

حل: خودی سے اجتماعی شعور کی طرف

اگر ہم چاہتے ہیں کہ ہمارا معاشرہ پھر سے ایک باوقار، پرامن، اور بااخلاق معاشرہ بنے تو ہمیں خودغرضی کی نفی کر کے اجتماعی شعور کو بیدار کرنا ہوگا۔ ہمیں دوسروں کے لیے جینا سیکھنا ہوگا۔ اپنی ذات سے نکل کر معاشرے کے لیے سوچنا ہوگا۔ قربانی، ہمدردی، اور احساس کو اپنی عملی زندگی کا حصہ بنانا ہوگا۔

نتیجہ

خودغرضی ایک ایسا زہر ہے جو بظاہر میٹھا ہے لیکن اندر ہی اندر پورے معاشرے کو تباہ کر دیتا ہے۔ اگر ہم نے اب بھی ہوش نہ کیا تو ایک ایسا وقت آئے گا جب لوگ انسانوں پر نہیں، صرف اپنے مفاد پر یقین کریں گے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم خود احتسابی کریں، اپنی سوچ اور عمل کا جائزہ لیں، اور اپنے رویوں کو بدل کر معاشرے کو بہتر بنانے میں اپنا کردار ادا کریں۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos