مصنوعی ذہانت کے غلط استعمال سے فکری دیوالیہ پن عیاں

[post-views]
[post-views]

ادارتی تجزیہ

پاکستانی میڈیا اور دانشور طبقے کی فکری زبوں حالی اس حد تک جا پہنچی ہے کہ گروک جیسے مصنوعی ذہانت کے ٹولز کے جوابات کو نہ صرف اخبارات میں بطور تجزیہ بلکہ سوشل میڈیا پر ثبوت کے طور پر بھی پیش کیا جا رہا ہے۔ یہ رویہ نہ صرف فکری سطحیت کی علامت ہے بلکہ علمی دیانت کے زوال کی بھی ایک سنگین مثال ہے۔

مصنوعی ذہانت کے ماڈلز، جیسے گروک یا چیٹ جی پی ٹی، بلاشبہ تحقیق، خلاصہ نویسی یا زبان میں مدد کے لیے مفید ہو سکتے ہیں، لیکن یہ نہ تو باشعور ہستیاں ہیں اور نہ ہی معلومات کے مستند ذرائع۔ ان کے جوابات محض تربیتی ڈیٹا کی بنیاد پر دی گئی پیش گوئیاں ہوتے ہیں، تحقیق یا خبر پر مبنی تجزیے نہیں۔ ان جوابات کو بغیر تنقیدی نظر کے بطور ثبوت یا حتمی تجزیہ پیش کرنا فکری دیوالیہ پن کا ثبوت ہے۔

یہ طرز عمل اس بات کی بھی غمازی کرتا ہے کہ تنقیدی سوچ ہمارے میڈیا اور علمی حلقوں سے کس تیزی سے غائب ہو رہی ہے۔ صحافی، کالم نگار اور محققین کا کام سوال اٹھانا، تحقیق کرنا اور حقائق کی تہہ تک جانا ہوتا ہے، نہ کہ سوچنے کی ذمہ داری مشینوں کے حوالے کر دینا۔

Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality conent.

جب مصنوعی ذہانت کو سنجیدہ قومی مباحثوں میں حتمی دلیل یا فیصلہ کن تجزیہ کے طور پر پیش کیا جائے، تو یہ نہ صرف علمی پستی ہے بلکہ اس سے گمراہ کن معلومات کے پھیلنے کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔ سچائی اور جھوٹ کے درمیان حد مٹنے لگتی ہے۔

ضرورت اس امر کی ہے کہ پاکستانی میڈیا اور دانشور طبقہ فکری دیانت، علمی تحقیق اور تجزیاتی گہرائی کی طرف واپس لوٹے۔ مصنوعی ذہانت کا بے جا استعمال تخلیقی عمل نہیں بلکہ فکری ناپختگی اور علمی افلاس کی علامت ہے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos