بھارت کا ثقافتی تعصب اور کرکٹ کا سیاسی استعمال

[post-views]
[post-views]

طارق محمود اعوان

بھارت میں پاکستان مخالف تعصب اب صرف سیاسی یا سفارتی دائروں تک محدود نہیں رہا، بلکہ اس نے ثقافتی مظاہر میں بھی گہری جڑیں پکڑ لی ہیں۔ حالیہ واقعہ، جس میں بھارت کے سابق کھلاڑیوں نے ایک لیجنڈز کرکٹ مقابلے میں پاکستان کے خلاف کھیلنے سے انکار کر دیا، اس رجحان کا تازہ مظہر ہے۔ شیکھر دھون جیسے معروف کھلاڑی کی جانب سے “جغرافیائی کشیدگی” کو جواز بنا کر میچ کا بائیکاٹ کرنا اس بات کی غمازی کرتا ہے کہ بھارت کس قدر منظم اور محدود نقطۂ نظر کے تحت پاکستان سے ہر سطح پر تعلقات ختم کرنے کے درپے ہے — چاہے وہ کھیل ہی کیوں نہ ہو۔

یہ مقابلہ ایک بین الاقوامی کرکٹ مقابلے کا حصہ تھا، جس کا مقصد ریٹائرڈ کھلاڑیوں کو دوبارہ میدان میں لا کر کرکٹ کے شائقین کو تفریح فراہم کرنا تھا۔ برطانیہ جیسے غیر جانب دار اور کھیل دوست ملک میں اس ایونٹ کے انعقاد کا مقصد کھیل کے ذریعے امن، رواداری اور دوستی کے پیغام کو فروغ دینا تھا۔ مگر بھارتی کھلاڑیوں کے اچانک انکار نے اس مثبت کوشش کو سیاسی ماحول کی نذر کر دیا۔

منتظمین کے بیان کے مطابق، پاکستان اور بھارت کے درمیان میچ کو حالیہ مثبت اشاروں، جیسے والی بال مقابلہ اور آئندہ ممکنہ ہاکی دورے، کے تناظر میں ترتیب دیا گیا تھا۔ یہ مقابلہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی میں کمی کے لیے ایک علامتی قدم ہو سکتا تھا۔ مگر بھارت نے اس موقع کو بھی ضائع کر دیا۔

شیکھر دھون کے پیغام میں موجود “جغرافیائی صورتحال” کا حوالہ محض ایک سیاسی بہانہ ہے۔ موجودہ حالات میں کوئی فوری تصادم یا جنگ کا ماحول نہیں، اور اس طرح کا جواز کھیل کے میدان میں عدم شرکت کے لیے پیش کرنا قابلِ افسوس اور ناقابلِ قبول رویہ ہے۔

یہ طرزِ عمل اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ بھارت میں کھیل کو بھی اب سیاست کا آلہ کار بنا دیا گیا ہے۔ خاص طور پر کرکٹ، جو جنوبی ایشیا میں امن کا سفیر بن سکتی ہے، اسے بھارت نے پاکستان کو عالمی سطح پر تنہا کرنے کے ہتھیار میں تبدیل کر دیا ہے۔ بھارتی معیشت اور کرکٹ منڈی کے حجم کی بنیاد پر جو اثر و رسوخ عالمی کرکٹ تنظیم پر حاصل ہے، اس کا استعمال پاکستان کے خلاف تعصب پر مبنی فیصلوں کے لیے کیا جا رہا ہے۔

Please, subscribe to the YouTube channel of republicpolicy.com for quality content.

یہ واقعہ ایسے وقت میں رونما ہوا ہے جب سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یہ انکشاف کیا کہ حالیہ بھارت-پاکستان کشیدگی کے دوران بھارت نے پانچ سے زائد طیارے کھوئے اور فوری طور پر امریکہ سے جنگ بندی کی درخواست کی۔ اس پس منظر میں بھارت کی کھیل کے میدان سے پسپائی اس کی عالمی سطح پر شرمندگی کو مزید بڑھا رہی ہے۔

افسوسناک امر یہ ہے کہ منتظمین کو معذرت نامہ جاری کرنا پڑا — وہ بھی بھارتی کھلاڑیوں اور عوام سے — جب کہ اصل بے عزتی پاکستان کے کھلاڑیوں کی ہوئی جو کھیلنے کے لیے تیار تھے۔ اس معذرت نے متاثرین کو موردِ الزام ٹھہرا کر ایک بار پھر تعصب اور جانبداری کا مظاہرہ کیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما سینیٹر شیری رحمٰن نے اس رویے پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ بھارتی کھلاڑی وزیرِ اعظم نریندر مودی کی پیروی کرتے ہوئے کھیل میں بھی نفرت کو ہوا دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق، میدان جنگ میں شکست، سفارت کاری میں ناکامی اور اب کھیلوں سے راہِ فرار — بھارت ہر محاذ پر شرمندگی کا سامنا کر رہا ہے۔

شیری رحمٰن نے بجا طور پر نشاندہی کی کہ کھیل امن، برداشت اور باہمی احترام کے نمائندے ہوتے ہیں، مگر بھارت نے اس پلیٹ فارم پر بھی تنگ نظری کا مظاہرہ کیا ہے۔ ان کے بقول، “نفرت پر مبنی بھارتی ایجنڈا اب کھیلوں کے جذبے اور علاقائی امن کے لیے بھی خطرہ بن چکا ہے۔”

یہ پہلی مرتبہ نہیں کہ بھارت نے کھیل میں سیاسی نظریات کی آمیزش کی ہو۔ گوتم گمبھیر جیسے سابق کھلاڑی پہلے ہی پاکستان کے ساتھ ہر سطح پر کرکٹ روابط منقطع کرنے کا مطالبہ کر چکے ہیں۔ بھارت کی جانب سے عالمی تنظیم پر مسلسل دباؤ ڈالا جاتا رہا ہے کہ پاکستان کو عالمی کرکٹ سے باہر رکھا جائے، جس کی کوئی قابلِ قبول اسپورٹس پالیسی بنیاد نہیں۔

اس تناظر میں سب سے زیادہ نقصان کھیل کے شائقین کو پہنچتا ہے، جو اس طرح کے یادگار مقابلوں کے منتظر ہوتے ہیں۔ کرکٹ صرف کھیل نہیں، جنوبی ایشیائی عوام کے لیے جذبات، یادیں اور مشترکہ تاریخ کا حصہ ہے۔ جب اس کو تعصب کا نشانہ بنایا جائے، تو یہ نہ صرف کھیل بلکہ عوامی تعلقات کو بھی نقصان پہنچاتا ہے۔

آخر میں، یہ سوال اٹھتا ہے کہ اگر ریٹائرڈ کھلاڑی بھی ایک دوسرے کے خلاف کھیلنے سے انکار کریں گے، تو خطے میں امن کی امید کس سے رکھی جائے گی؟ کیا کرکٹ جیسے مثبت میدان کو بھی مکمل طور پر سیاسی تقسیم کا شکار کر دیا جائے گا؟

پاکستان نے اس پورے واقعے میں اخلاقی برتری کا مظاہرہ کیا ہے — نہ صرف شرکت کے لیے آمادگی ظاہر کر کے، بلکہ امن اور کھیل کے جذبے کا پیغام دے کر۔ بھارت کو اس پر غور کرنا چاہیے کہ کھیل کو سیاست کا میدان بنانے سے عالمی سطح پر اسے عزت نہیں بلکہ تنقید ہی حاصل ہو گی۔

کرکٹ محض مقابلہ نہیں بلکہ آئینہ ہے — اور اس بار بھارت کے رویے نے تنگ نظری، خوف اور تعصب کی عکاسی کی ہے۔ ایک حقیقی اسپورٹس مین قوم وہی ہوتی ہے جو مقابلہ بھی کرے اور ساتھ جینے کا حوصلہ بھی رکھے۔ بھارت کو یہ سبق سیکھنے کی ضرورت ہے، ورنہ وہ کھیل کے میدان میں صرف تنہائی کا سامنا کرے گا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos