ادارتی تجزیہ
پاکستان کے چاروں صوبوں کی حکمرانی کا جائزہ لیا جائے تو ہر صوبہ مختلف نوعیت کے مسائل اور طرزِ حکمرانی کا شکار نظر آتا ہے۔ پنجاب میں حکومتی منصوبوں کو حد درجہ نمایاں کیا جاتا ہے، جن میں اشتہارات، تقاریر اور میڈیا مہمات کا غلبہ ہوتا ہے۔ اگرچہ بظاہر ترقی دکھائی دیتی ہے، مگر گہرائی میں اصلاحات، شفافیت اور بیوروکریٹک جوابدہی کا شدید فقدان پایا جاتا ہے۔
خیبرپختونخوا میں حالات اس سے مختلف ہیں، جہاں ابتدائی اصلاحات کے باوجود موجودہ حکومت بیوروکریسی پر قابو پانے، پالیسیوں کے مؤثر نفاذ اور نظام کی فعالیت برقرار رکھنے میں ناکام رہی ہے۔ صحت، تعلیم اور مقامی حکومت جیسے شعبے کمزور پڑ چکے ہیں، اور بدانتظامی نے گورننس کو مفلوج کر دیا ہے۔
سندھ ایک جمود زدہ نظام کا شکار ہے جہاں پاکستان پیپلز پارٹی 2008 سے برسراقتدار ہے۔ تاہم، اس طویل اقتدار کے باوجود صوبے میں کوئی واضح ادارہ جاتی اصلاحات متعارف نہیں کرائی جا سکیں۔ بدعنوانی، سیاسی سرپرستی اور دیہی علاقوں میں انتظامی پسماندگی نے سندھ کی گورننس کو غیر مؤثر بنا دیا ہے۔
بلوچستان کی حالت سب سے کمزور ہے، جہاں نہ صرف نمائندہ حکومت کا فقدان ہے بلکہ صوبائی خودمختاری بھی عملی طور پر محدود ہے۔ مسلسل سیاسی بے یقینی، وفاقی مداخلت اور بیوروکریسی کی غیر فعالیت نے صوبے کو انتظامی خلا میں دھکیل دیا ہے۔
مجموعی طور پر پاکستان کے صوبے چار مختلف حکمرانی بحرانوں کی نمائندگی کرتے ہیں: پنجاب میں سطحی نمائشی حکمرانی، خیبرپختونخوا میں بدانتظامی، سندھ میں اصلاحات کا جمود، اور بلوچستان میں حکومتی ناپائیداری۔ مسئلے کا حل گہرائی میں موجود کمزوریوں کو تسلیم کرتے ہوئے سیاسی پختگی، ادارہ جاتی استحکام اور شفاف نظام کی تشکیل میں ہے۔