امریکی وزیر خارجہ مارکو روبیو نے فرانسیسی صدر ایمانویل میکرون کے اُس اعلان کی شدید مخالفت کی ہے جس میں انہوں نے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کا عندیہ دیا تھا۔ روبیو نے اس فیصلے کو “غیر ذمہ دارانہ” قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ اقدام “حماس کے بیانیے کو تقویت دیتا ہے اور امن کی کوششوں کو نقصان پہنچاتا ہے۔”
جمعرات کی رات سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پیغام میں روبیو نے لکھا:
“امریکہ صدر میکرون کے فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے منصوبے کو سختی سے مسترد کرتا ہے۔ یہ فیصلہ صرف حماس کے مفاد میں ہے اور امن کی راہ میں رکاوٹ بنے گا۔”
اس بیان کے ساتھ ہی ٹرمپ انتظامیہ نے بھی اعلان کیا ہے کہ وہ اقوام متحدہ کے اُس اجلاس میں شرکت نہیں کرے گی جو اسرائیل اور فلسطین کے مسئلے پر دو ریاستی حل کے لیے منعقد کیا جا رہا ہے۔
دوسری جانب، فرانس کے صدر میکرون نے کچھ دیر پہلے اعلان کیا تھا کہ وہ ستمبر میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں فلسطینی ریاست کو باضابطہ طور پر تسلیم کریں گے۔ میکرون نے اپنے بیان میں کہا:
“مشرق وسطیٰ میں پائیدار اور منصفانہ امن کے لیے اپنی تاریخی وابستگی کے تحت، میں نے فیصلہ کیا ہے کہ فرانس فلسطینی ریاست کو تسلیم کرے گا۔”
اگر ایسا ہوا تو فرانس فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے والا یورپ کا سب سے بڑا اور طاقتور ملک بن جائے گا، خاص طور پر اسرائیل کا قریبی اتحادی اور کا رکن ہونے کے ناطے۔
اس سے قبل ناروے، آئرلینڈ اور اسپین نے بھی مئی میں اعلان کیا تھا کہ وہ فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے عمل کا آغاز کر چکے ہیں۔
اب تک اقوام متحدہ کے 193 رکن ممالک میں سے کم از کم 142 ممالک فلسطینی ریاست کو تسلیم کر چکے ہیں یا کرنے کے ارادے کا اظہار کر چکے ہیں، لیکن امریکہ، برطانیہ اور جرمنی جیسے طاقتور مغربی ممالک نے اب تک ایسا نہیں کیا۔
روبیو کے بیان سے امریکہ اور یورپ کے بڑے ممالک کے درمیان مشرق وسطیٰ کے مسئلے پر بڑھتے ہوئے اختلافات سامنے آ رہے ہیں، اور میکرون کا یہ اقدام یورپ میں مزید سفارتی تبدیلیوں کو جنم دے سکتا ہے۔