فاطمہ اظہر
پاکستانی معیشت کا المیہ یہ ہے کہ جب بھی حکومت عوام کے لیے کسی ریلیف کا اعلان کرتی ہے، پسِ پردہ ایک نیا معاشی بحران سر اٹھا رہا ہوتا ہے۔ چینی کی قیمتوں میں اچانک اضافے کے بعد حکومتی اقدامات کی نوید سنائی گئی، مگر اس کے چند ہی دنوں میں خوردنی تیل کا ایک نیا شرمناک انکشاف سامنے آ گیا، جس نے حکومتی دعووں کو بے نقاب کر دیا۔ اس صورتحال نے پاکستان کے معاشی نظام میں موجود گہرے تضادات اور ریاستی نااہلی کو پوری شدت سے آشکار کیا ہے۔
عالمی منڈی میں خوردنی تیل کی قیمت میں خاطر خواہ کمی واقع ہو چکی ہے، جس کے ساتھ درآمدی ڈیوٹیوں میں بھی واضح نرمی کی گئی ہے۔ اس کے باوجود، پاکستان میں تیل کی قیمت مسلسل بڑھ رہی ہے۔ بازار میں 1 لیٹر تیل کی قیمت 600 سے 700 روپے تک پہنچ چکی ہے، جو ایک عام شہری کی مالی استطاعت سے باہر ہے۔ اس اضافے کا کوئی معاشی جواز نہیں۔ یہ محض عوام پر مہنگائی کا نیا بوجھ ڈالنے کی ایک اور مثال ہے، جس کے پیچھے غیر شفاف کاروباری مفادات اور حکومتی بے عملی کارفرما ہیں۔
مارکیٹ میں منافع خوری اور ذخیرہ اندوزی ایک منظم سازش کی شکل اختیار کر چکی ہے۔ قیمتیں عالمی سطح پر گرتی ہیں، مگر پاکستان میں انہیں مصنوعی قلت پیدا کر کے دوگنا کر دیا جاتا ہے۔ یہ معمولی کاروباری چالاکی نہیں بلکہ ریاست کے اندر موجود ایک منظم معاشی جرم ہے۔ آئل مارکیٹنگ کمپنیاں اور بڑے تاجر ذخیرہ اندوزی کر کے قیمتیں بڑھاتے ہیں، اور حکومت یا تو مصلحتاً خاموش رہتی ہے یا عملی طور پر بےبس دکھائی دیتی ہے۔
پچھلے کچھ ماہ سے حکومت مہنگائی کے خلاف ریلیف کے وعدے کرتی آ رہی ہے۔ وزراء کی زیر صدارت اجلاس، پریس کانفرنسیں اور اعلامیے جاری ہوتے ہیں، لیکن عوام کو ریلیف کے بجائے نئے بحرانوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایسی کاغذی کاروائیاں نہ صرف عوام کا وقت ضائع کرتی ہیں بلکہ عوامی اعتماد کو بھی شدید نقصان پہنچاتی ہیں۔ ریلیف کا اعلان تو کیا جاتا ہے، مگر عملی سطح پر دکانوں کے نرخ نامے مزید بڑھتے جاتے ہیں۔
پاکستان میں پالیسی سازی اور اس پر عملدرآمد کے درمیان ایک گہری خلیج موجود ہے۔ وزراء بیانات دیتے ہیں کہ عوامی مفاد مقدم ہے، مگر حقیقت یہ ہے کہ عوامی مفاد پر سرمایہ دار طبقہ اور کارٹیلز کا قبضہ ہے۔ خوردنی تیل کی عالمی قیمتیں اگر کم ہو رہی ہیں تو اس کا فائدہ براہِ راست عوام کو ملنا چاہیے۔ مگر کمپنیاں یہ نفع خود ہضم کر جاتی ہیں، جبکہ حکومت ان کے ساتھ خاموش مفاہمت میں مصروف نظر آتی ہے۔
یہ سوال اب کھل کر سامنے آ چکا ہے کہ ریاست کس کے مفاد میں فیصلے کرتی ہے؟ کیا ریاست کا فرض صرف اشرافیہ اور سرمایہ دار طبقات کی سہولت کاری رہ گیا ہے؟ یا پھر عوامی فلاح بھی کوئی معنی رکھتی ہے؟ موجودہ حالات میں ریاست کی خاموشی محض انتظامی ناکامی نہیں بلکہ آئینی و اخلاقی سوال ہے۔ اگر ریاست مٹھی بھر منافع خوروں کے مفاد کے سامنے جھک جاتی ہے، تو پھر جمہوریت کا مقدمہ خود بخود کمزور ہو جاتا ہے۔
مستقبل کے لیے راستہ صرف ریلیف کے دعووں میں نہیں، بلکہ ایک مؤثر اور خودمختار نظامِ نگرانی کے قیام میں ہے۔ ایک ایسا ادارہ جو نہ صرف قیمتوں کی عالمی و مقامی سطح پر نگرانی کرے، بلکہ صارفین کے حقوق کی حفاظت کو یقینی بنائے۔ یہ ادارہ حکومتی دباؤ سے آزاد اور مکمل طور پر شفاف ہو تاکہ قیمتوں میں کمی کا فائدہ براہِ راست عوام تک منتقل کیا جا سکے، نہ کہ صرف مخصوص کارٹیلز تک۔
عوامی اعتماد وہ سرمایہ ہے جو اگر ایک بار ٹوٹ جائے تو کسی ریاست کے لیے اسے واپس پانا آسان نہیں ہوتا۔ جب ایک عام شہری روزانہ کی بنیاد پر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں سے جنگ لڑ رہا ہو، اور ریاست اسے صرف بیانات دے رہی ہو، تو وہ مایوسی اور بدظنی کی طرف مائل ہو جاتا ہے۔ ایسی بدظنی صرف معیشت کے لیے خطرناک نہیں، بلکہ ریاستی ڈھانچے کے لیے بھی ایک سنگین چیلنج بن جاتی ہے۔ اگر حکومت واقعی سنجیدہ ہے تو اسے صرف پریس ریلیز جاری کرنے کے بجائے عملی اقدامات کرنے ہوں گے، ورنہ عوام کے زخم مزید گہرے ہوں گے، اور یہ زخم صرف غربت نہیں، بے یقینی کو بھی جنم دیں گے۔