جرگے کے نام پر ریاستی رِٹ کا قتل

[post-views]
[post-views]

مبشر ندیم

خون، خاموشی اور غیرت — ریاستی و سماجی زوال کی علامت

بلوچستان کی خاک ابھی ایک معصوم بیٹی کے خون سے نم تھی کہ راولپنڈی جیسے دارالحکومت سے منسلک شہری علاقے میں، جہاں قانون کے نفاذ اور ریاستی رٹ کے سب سے بلند دعوے کیے جاتے ہیں، پیرودھائی کے مقام پر ایک اور بیٹی کو غیرت کے نام پر بے دردی سے قتل کر دیا گیا — اور وہ بھی ایک غیرقانونی جرگے کے فیصلے پر۔

یہ واقعات محض جرائم نہیں، بلکہ ریاست کی مکمل بے بسی، آئینی وعدوں کی پامالی، اور اجتماعی شعور کی شکست کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ اب سوال یہ نہیں رہا کہ ’’یہ کیا ہو رہا ہے؟‘‘ بلکہ اصل سوال یہ ہے کہ ’’یہ سب کس کی اجازت، کس کی شہ اور کس کی خاموشی سے ہو رہا ہے؟‘‘ اگر آئین زندہ ہے، قانون لاگو ہے، پولیس متحرک ہے، عدلیہ آزاد ہے، اور حکومت بااختیار ہے — تو پھر اس مسلسل ظلم پر یہ اجتماعی خاموشی کس چیز کی غماز ہے؟

جرگے: روایت نہیں، ظلم کا غیر قانونی نظام

جرگے کو بعض حلقے ثقافتی دانش کا مظہر، دیہی انصاف کا متبادل، یا ’’لوک حکمت‘‘ کی علامت قرار دیتے ہیں، لیکن یہ تمام تاویلات ایک بھیانک حقیقت پر پردہ ڈالنے کی کوشش ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آج کا جرگہ انصاف کا نہیں، جبر، استحصال اور طاقت کی غیرقانونی مشق کا نمائندہ بن چکا ہے — خصوصاً خواتین کے لیے۔

یہ وہی جرگے ہیں جو عورتوں کو ونی کرتے ہیں، واجب القتل قرار دیتے ہیں، بے گناہ لوگوں کو جلا وطن کرتے ہیں، اور نجی دشمنیوں کو ’’اجتماعی فیصلے‘‘ کا لبادہ پہنا کر نافذ کرتے ہیں۔ ان کے فیصلے نہ آئینی ہیں، نہ شرعی، نہ انسانی۔

ریاست کی طرف سے ان جرگوں کو برداشت کرنا یا ان کی طرف سے چشم پوشی اختیار کرنا دراصل ایک طرح کا دست شفقت ہے — اور یہی دست شفقت انہیں طاقتور بناتا ہے، ریاستی اداروں کو بے وقعت، اور آئین کو کاغذ کا ٹکڑا بنا دیتا ہے۔

جب ریاست خود لاپتہ ہو جائے

ریاستی وجود کی بنیادی شرط ہے کہ وہ اپنے شہریوں کی جان، مال، عزت اور آزادی کی ضامن ہو۔ لیکن جب گاؤں یا قصبے میں بیٹھے کچھ بااثر افراد، جرگے کے نام پر، لوگوں کی زندگیاں، زمینیں، رشتے اور عزتیں صرف اپنے سماجی اثرورسوخ کی بنیاد پر برباد کر سکتے ہیں — اور ریاست خاموش تماشائی بنی رہتی ہے — تو درحقیقت وہ ریاست عملاً لاپتہ ہو چکی ہوتی ہے۔

جب عوام کو انصاف عدالتوں سے نہیں ملتا، جب پولیس طاقتور کے سامنے بے بس ہو جاتی ہے، جب مظلوم کی فریاد تھانے کے دروازے پر دب جاتی ہے، اور جب مقدمات برسوں عدالتوں میں دھکے کھاتے ہیں، تو یہی خلاء جرگوں کو طاقت دیتا ہے۔

یہ غیر قانونی نظام دراصل ریاستی ناکامیوں کا نتیجہ ہے، اور یہ ناکامی صرف انتظامی نہیں بلکہ اخلاقی، سماجی اور قانونی سطح پر ہے۔

غیرت کے نام پر قتل — عورت دشمنی کا مقدس لبادہ

غیرت کے نام پر قتل محض ایک جرم نہیں، بلکہ عورت کی مرضی، خودمختاری اور انسانیت کی منظم نفی ہے۔ ایسے قتل دراصل اس سوچ کی پیداوار ہیں جو عورت کو انسان نہیں، بلکہ خاندان کی عزت کا ایک علامتی مجسمہ سمجھتی ہے — جسے جب چاہے قربان کیا جا سکتا ہے۔

اس سوچ کے پیچھے صدیوں پرانی پدرسری ذہنیت، قبائلی غیرت، جاگیردارانہ تسلط، اور مذہب کی مفاد پرستانہ تاویلیں کارفرما ہیں۔ عورت کی اپنی ذات، خواہش، رائے اور انتخاب کو نہ صرف بے توقیر بلکہ مجرمانہ سمجھا جاتا ہے۔

المیہ یہ ہے کہ ہمارے تعلیمی ادارے اس ذہنیت کے خلاف کوئی فکری مزاحمت پیدا نہیں کرتے، میڈیا اسے ایک سنسنی خیز واقعے کے طور پر پیش کرتا ہے لیکن اس کے بنیادی اسباب پر خاموش رہتا ہے، اور مذہبی قیادت اپنی خاموشی سے اس جبر کو مزید تقدس بخشتی ہے۔

جب قاتل بااختیار اور قانون خاموش ہو

جرگے نہ صرف عورتوں کے قتل کا فیصلہ کرتے ہیں، بلکہ ان فیصلوں پر عمل درآمد کے لیے ایک اجتماعی خاموشی، اور بعض اوقات مکمل معاونت بھی موجود ہوتی ہے۔ مقامی سطح پر پولیس یا تو شامل جرم ہوتی ہے یا محض ایک رُوبوٹ جو ایف آئی آر کے اندراج تک محدود ہے۔

عدلیہ، جو انصاف کی آخری امید سمجھی جاتی ہے، اکثر اُس وقت متحرک ہوتی ہے جب ایک اور لاش دفنا دی جاتی ہے، جب ایک اور ماں رو رہی ہوتی ہے، جب ایک اور بچی غائب ہوتی ہے۔ یہ عدالتی بے حسی نہیں تو اور کیا ہے؟

جب ایک غیرقانونی ادارہ، جرگہ، کھلے عام انسانی جانوں کے فیصلے کرتا ہے اور ریاست اس کے سامنے بے بس کھڑی ہوتی ہے، تو یہ صرف آئین کی توہین نہیں، بلکہ شہریوں کی اس اجتماعی امید کا قتل ہے جو انہوں نے ریاست پر قائم کی تھی۔

اب سوال یہ ہے کہ…

کیا ہم ایک آئینی ریاست میں جی رہے ہیں یا قبائلی جنگل میں جہاں انصاف طاقتور کی صوابدید ہے؟

کیا ریاست اس قابل ہے کہ شہریوں کو یہ یقین دلا سکے کہ ان کی زندگیاں، عزتیں اور فیصلے صرف عدالتوں سے ہوں گے؟

اگر نہیں — تو ہمیں بطور معاشرہ یہ تسلیم کر لینا چاہیے کہ ہم آئین اور قانون کے بجائے ’’رسم، غیرت، جرگہ اور خوف‘‘ پر مبنی ایک نیم قبائلی معاشرے میں زندہ ہیں، جہاں ریاست صرف کاغذ پر موجود ہے اور حقیقت میں جنگل کا قانون راج کرتا ہے۔

وقت آ چکا ہے کہ جرگوں کے نام پر ہونے والے ہر ظلم کو، ریاستی خاموشی کو، اور غیرت کے نام پر ہونے والے ہر قتل کو کھل کر چیلنج کیا جائے۔ جب تک قانون کی عملداری ہر گلی، ہر گاؤں اور ہر گھر تک نہیں پہنچتی، ہم بطور قوم مہذب نہیں کہلا سکتے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos