پڑھ کر کیا کرنا ہے؟

[post-views]
[post-views]

امجد اقبال

پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کی زبوں حالی اب کسی خفیہ حقیقت یا پیچیدہ تجزیے کی متقاضی نہیں رہی۔ حالیہ دنوں بہاؤالدین زکریا یونیورسٹی ملتان میں داخلے کی فہرست جاری ہوئی، جس کے تحت 4,000 سے زائد نشستوں کے مقابلے میں صرف 300 طلبہ نے فیس جمع کروائی۔ یہ محض ایک ادارے کی ناکامی نہیں، بلکہ پورے اعلیٰ تعلیمی نظام پر ایک سنگین سوالیہ نشان ہے۔

یہ صورتحال صرف ایک ادارے تک محدود نہیں۔ قائداعظم یونیورسٹی، نسٹ اور اسلامک یونیورسٹی جیسے ملک کے اہم تعلیمی اداروں میں بھی سائنسی اور خالص علوم — جیسے فزکس، کیمسٹری، ریاضی، اردو اور انگریزی — کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ جہاں پہلے سینکڑوں امیدوار ان مضامین کے لیے درخواستیں دیا کرتے تھے، وہاں اب بمشکل چند داخلے ہوتے ہیں۔

علم اور روزگار کا منقطع رشتہ

خالص علوم، جنہیں عالمی سطح پر تحقیق اور اختراع کی بنیاد سمجھا جاتا ہے، پاکستان میں بے روزگاری اور بے وقعتی کی علامت بن چکے ہیں۔ جب کسی مضمون کا مطالعہ مالی تحفظ یا پیشہ ورانہ مواقع کی ضمانت نہ دے، تو طلبہ قدرتی طور پر ان سے کنارہ کش ہو جاتے ہیں۔

ریاستی غفلت اور بجٹ کی بے حسی

تعلیم پاکستانی ریاست کی کبھی بھی ترجیح نہیں رہی۔ بجٹ میں تعلیم کو سب سے کم حصہ دیا جاتا ہے، اساتذہ کی تنخواہیں غیر یقینی ہوتی ہیں، ریسرچ فنڈز کی شدید قلت ہے، اور یونیورسٹیاں انتظامی افسر شاہی کے زیرِ اثر زبوں حالی کا شکار ہیں۔

معاشی دباؤ اور تعلیم سے گریز

ایک متوسط طبقے کے طالبعلم کے لیے چار سالہ ڈگری پر لاکھوں روپے خرچ کرنا اب ایک ناقابلِ برداشت خواب بن چکا ہے، خاص طور پر جب روزگار کا کوئی واضح راستہ نظر نہ آئے۔ ایسے میں والدین اور طلبہ ہنر مند کورسز یا مختصر تربیتی پروگراموں کو ترجیح دیتے ہیں۔

نجی یونیورسٹیوں کی تجارتی تعلیم

پرائیویٹ یونیورسٹیز نے تعلیم کو ایک مہنگی اشرافیائی پروڈکٹ بنا دیا ہے، جس میں صرف وہی مضامین دستیاب ہیں جو فوری مالی فائدہ دے سکیں — جیسے بزنس، آئی ٹی، یا میڈیا۔ یہاں خالص علوم یا سماجی علوم کو جگہ ہی نہیں دی جاتی۔

نظام تعلیم میں وژن کا فقدان

پاکستانی تعلیمی نظام آج بھی رٹہ سسٹم، گریڈز، اور ڈگریوں کے گرد گھومتا ہے۔ تنقیدی سوچ، عملی تربیت، تحقیق اور اختراع کا کوئی تصور موجود نہیں۔ یہ نظام نہ صرف طالبعلم کو مایوس کرتا ہے، بلکہ معاشرے میں علم کی ساکھ کو بھی تباہ کر رہا ہے۔

اجتماعی ذمہ داری کا تعین

یہ ایک اجتماعی ناکامی ہے، جس میں کئی کردار برابر کے شریک ہیں
ریاست، جو تعلیم کو محض تقریری نکتہ یا انتخابی نعرہ سمجھتی ہے
اعلیٰ تعلیمی کمیشن، جو بجٹ، نصاب اور پالیسی سازی میں مکمل طور پر ناکام رہا ہے
جامعاتی انتظامیہ، جنہوں نے تعلیمی اداروں کو تحقیق کے مراکز کے بجائے بیوروکریٹک دفاتر میں بدل دیا ہے
سماج، جس نے تعلیم کو شعور، تحقیق یا شخصیت سازی کا ذریعہ سمجھنے کے بجائے محض روزگار کا راستہ بنا کر محدود کر دیا ہے

نکاتِ اصلاح و بہتری

تعلیم کا بجٹ کم از کم جی ڈی پی کے چار فیصد تک بڑھایا جائے
خالص سائنسی اور ادبی مضامین کو پیشہ ورانہ زندگی سے جوڑنے کی مربوط پالیسی بنائی جائے
تحقیق، تربیت اور تنقیدی فکر کو نظام تعلیم کا مرکزی ستون بنایا جائے
اساتذہ کو معقول تنخواہیں، تحقیقی آزادی اور پیشہ ورانہ ترقی کے مواقع دیے جائیں
طلبہ کے لیے اسکالرشپس، فیس میں رعایت، اور رہائشی سہولیات کا وسیع نظام تشکیل دیا جائے

سوال جو سب کو خود سے پوچھنا ہے

جب یونیورسٹیوں کے کلاس روم خالی ہو رہے ہوں، جب نوجوان علم سے مایوس ہو چکے ہوں، جب سائنس اور ادب بے قدر ہو چکے ہوں — تو کیا ہم خود کو ایک مہذب، ترقی یافتہ اور باشعور قوم کہہ سکتے ہیں؟

یا پھر ہمارے طلبہ کی طرح ہمیں بھی بس یہی کہنا ہے
“پڑھ کر کیا کرنا ہے؟”

یہ سوال اب صرف طلبہ کا نہیں — بلکہ خود ریاست، حکومت، پالیسی سازوں، والدین اور سماج کے ہر فرد سے مخاطب ہے۔ اب اس کا جواب محض بحث میں نہیں بلکہ عملی اقدام میں ہونا چاہیے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos