ادارتی تجزیہ
انصاف کی تلاش، ضمیر کی شکست
جب ایک قوم کی بیٹی ہزاروں میل دور غیر ملکی زندان میں سسک رہی ہو، اور اس کے اپنے حکمران اس کی رہائی کی جدوجہد کرنے کے بجائے، اس پر دی جانے والی سزا کو “درست” قرار دیں — تو سوال صرف انصاف کا نہیں، بلکہ قومی غیرت کا بنتا ہے۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی کہانی صرف ایک قیدی کی روداد نہیں بلکہ بیسویں اور اکیسویں صدی کی سب سے سیاہ ریاستی بے حسی کی علامت ہے۔ ایک تعلیم یافتہ، باوقار، اور بین الاقوامی سطح پر کامیاب مسلم خاتون کو افغانستان سے اغوا کر کے گوانتانامو اور پھر امریکی عدالتوں میں گھسیٹا گیا، جہاں اسے ایک من گھڑت الزام کی بنیاد پر 86 سال قید کی سزا سنائی گئی — ایک ایسا مقدمہ جس میں شواہد نہ تھے، گواہان مشکوک تھے اور انصاف اندھا نہیں بلکہ مردہ دکھائی دیا۔
ریاستی مجرمانہ خاموشی
پاکستانی ریاست کی مجرمانہ خاموشی اور بے عملی نے اس مسئلے کو ایک انسانی المیہ بنا دیا۔ برسوں گزر گئے، عافیہ کی ماں، بہن اور بچوں نے ہر در کھٹکھٹایا، ہر حکومت سے اپیل کی، لیکن انہیں یا تو جھوٹی تسلیاں ملیں یا پھر محض انتخابی نعرے۔
اسحاق ڈار کا شرمناک بیان
اسی سلسلے میں حالیہ دنوں وزیر خارجہ اسحاق ڈار کا یہ کہنا کہ عافیہ صدیقی کو دی جانے والی سزا درست تھی، ایک قومی جرم کے اوپر ریاستی دستخط کے مترادف ہے۔ ایک ایسا بیان جو نہ صرف انسانی ہمدردی سے خالی ہے بلکہ غلامانہ ذہنیت کی مکمل عکاسی کرتا ہے۔ اس بیان کے ذریعے ڈار صاحب نے گویا عافیہ صدیقی کی اذیتوں پر مہرِ توثیق ثبت کر دی — وہ اذیتیں جن میں گوانتانامو کے عقوبت خانے، جسمانی و ذہنی تشدد، اور ماں سے چھینے گئے بچوں کا غم شامل ہے۔
یہ بیان صرف ایک فرد کی رائے نہیں بلکہ پوری حکومتی ذہنیت کا عکاس ہے، جو طاقتور عالمی ایجنڈوں کے سامنے جھکنا اپنی خارجہ پالیسی سمجھتی ہے، اور جو امریکی عدالتوں کے ظالمانہ فیصلوں کو انصاف مان لیتی ہے، لیکن اپنی شہری کو انصاف دلانے کی صلاحیت و جرات نہیں رکھتی۔
عافیہ: پاکستان کا ضمیر
عافیہ صدیقی اب ایک فرد نہیں بلکہ پاکستان کے ضمیر کا نام ہے۔ جس دن قوم نے یہ ضمیر ہمیشہ کے لیے دفن کر دیا، اسی دن ہم بین الاقوامی سطح پر اپنی خودمختاری کھو چکے ہوں گے۔ اگر اسرائیل ہزاروں میل دور سے اپنے ایک فوجی کو چھڑانے کے لیے پورے خطے کو ہلا دیتا ہے، اگر امریکہ اپنے ایک جاسوس کو سفارتی تحفظ دے کر لے جاتا ہے، تو پاکستان کیوں اپنی شہری کے لیے کچھ نہیں کر سکا؟
عافیہ صدیقی اب محض ایک قیدی نہیں، وہ ہماری اجتماعی بے حسی اور ریاستی اخلاقی دیوالیہ پن کی علامت بن چکی ہے۔ دنیا کی باشعور اقوام اپنے شہریوں کو دشمن کی قید سے چھڑوانے کے لیے آخری حد تک چلی جاتی ہیں، لیکن ہم نے اپنی بیٹی کے لیے صرف بیانات، خاموشی اور ذلت کا راستہ اختیار کیا۔
یہ مسئلہ اب انسانی حقوق سے آگے جا چکا ہے۔ یہ سوال اب یہ ہے کہ کیا پاکستان کی ریاست واقعی خودمختار ہے؟ کیا ہمارے حکمران عوام کی نمائندگی کرتے ہیں یا کسی بیرونی طاقت کے مفادات کے محافظ بن چکے ہیں؟
اگر اسحاق ڈار جیسے لوگ اپنی زبان سے امریکہ کی اندھی عدالتوں کو حق بجانب ٹھہرا رہے ہیں، تو انہیں وزارتِ خارجہ کے بجائے شرم و ندامت کا کفن اوڑھ لینا چاہیے۔ عافیہ صدیقی کو سزا دینا جتنا بڑا ظلم تھا، اس ظلم کی حمایت کرنا اس سے بھی بڑھ کر بے غیرتی ہے۔
اب وقت ہے کہ پاکستان کی پارلیمان، عدالتیں، ذرائع ابلاغ اور عوام اس المیے پر ایک نئی آواز بلند کریں۔ اگر ہم نے اب بھی خاموشی اختیار کی، تو یہ خاموشی صرف عافیہ کے حق میں نہیں، بلکہ پوری قوم کے مستقبل کے خلاف ایک مجرمانہ گٹھ جوڑ تصور کی جائے گی۔