امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے غزہ میں سنگین انسانی بحران کا اعتراف کرتے ہوئے کہا کہ ’’یہ حقیقی بھوک ہے‘‘، جبکہ انہوں نے اسرائیلی وزیرِاعظم بنیامین نیتن یاہو کے اس مؤقف کی تردید کی کہ بھوک کے حوالے سے رپورٹس محض ’’بے بنیاد جھوٹ‘‘ ہیں۔ ٹرمپ نے یہ بات برطانوی وزیرِاعظم کیئر اسٹارمر سے ملاقات کے دوران کہی اور مزید کہا کہ ’’وہ بچے بہت بھوکے لگتے ہیں… یہ واقعی بھوک کی صورتحال ہے‘‘۔ انہوں نے اسرائیل کو جنگ کے حوالے سے اپنا طریقہ کار بدلنے کا مشورہ بھی دیا۔
یہ بیان اقوامِ متحدہ اور عالمی ادارۂ صحت کی ان وارننگز کے بعد سامنے آیا ہے جن میں غزہ میں شدید غذائی قلت پر تشویش ظاہر کی گئی تھی۔ اقوامِ متحدہ کے انسانی ہمدردی کے عہدیدار ٹام فلی چر نے موجودہ امداد کو ’’سمندر میں ایک قطرہ‘‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ بڑے پیمانے پر اور مسلسل خوراک و طبی امداد کی فوری ضرورت ہے۔ اسرائیل کے مطابق، حکمتِ عملی کے تحت جنگی وقفوں میں 120 امدادی ٹرک اور غیرملکی فضائی امداد غزہ میں داخل کی گئی، تاہم فلی چر کے مطابق بیشتر ٹرک بھوکے شہریوں نے لوٹ لیے، اور امداد کی ترسیل بیوروکریٹک اور سیکیورٹی رکاوٹوں کا شکار ہے۔
انسانی ہمدردی کی راہداریوں اور فضائی امداد کی محدود بحالی کے باوجود صورتحال تشویشناک ہے۔ حماس کے زیرانتظام غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق صرف 24 گھنٹوں میں غذائی قلت سے مزید 14 افراد جاں بحق ہوئے، یوں اکتوبر 2023 سے اب تک بھوک اور غذائی کمی سے اموات کی تعداد 147 ہوگئی ہے، جن میں 88 بچے شامل ہیں۔ عالمی ادارۂ صحت نے خبردار کیا کہ صرف جولائی میں 63 اموات بھوک سے ہوئیں اور اسے ’’مکمل طور پر روکی جا سکنے والی‘‘ تباہی قرار دیا۔
نیتن یاہو نے دانستہ بھوک پیدا کرنے کے الزامات کو ’’جھوٹ‘‘ قرار دیا اور کہا کہ امداد کی اجازت ہے، مسئلہ حماس کی رکاوٹیں ہیں۔ تاہم بین الاقوامی اداروں، بشمول نیویارک ٹائمز اور روئٹرز، نے ایسی کوئی شہادت نہیں پائی کہ حماس باقاعدہ طور پر اقوامِ متحدہ کی امداد چوری کر رہی ہے۔ دریں اثناء، اسرائیلی فوج کی کارروائیاں جاری ہیں اور مقامی صحت حکام کے مطابق اب تک غزہ میں 59 ہزار 800 سے زائد افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
عالمی سطح پر شدید احتجاج کے باوجود اسرائیل اب بھی صحافیوں کو غزہ میں آزادانہ رسائی نہیں دے رہا۔ ماہرین کے مطابق عارضی جنگی وقفے ناکافی ہیں۔ اقوامِ متحدہ نے ایک مکمل جنگ بندی پر زور دیتے ہوئے کہا ہے کہ ہفتوں اور مہینوں تک مسلسل امداد کی ترسیل ہی مزید جانوں کے ضیاع کو روک سکتی ہے۔













