شازیہ رمضان
پاکستان میں جمہوریت کی بنیاد اُس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتی جب تک عوام اپنی اصل طاقت کو نہ پہچانیں اور اُن افراد کا احترام نہ کریں جنہیں وہ اپنے ووٹ کے ذریعے پارلیمان میں بھیجتے ہیں۔ آئینِ پاکستان کے مطابق، اقتدارِ اعلیٰ صرف عوام کا ہے اور یہ اختیار صرف اُن منتخب نمائندوں کے ذریعے استعمال ہوتا ہے جو عوامی رائے کا اصل عکس ہوتے ہیں۔
جمہوریت کی روح یہ ہے کہ معاشی، سماجی اور خارجہ پالیسی سے متعلق فیصلے وہی لوگ کریں جو براہِ راست عوام کے ووٹ سے منتخب ہوں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں یہ اصول کمزور ہو گیا ہے۔ ایسا کلچر پیدا ہو گیا ہے جہاں سیاستدانوں کو بدنام کرنا، اُن کی ساکھ مجروح کرنا اور غیر منتخب اداروں کی بالادستی کو سراہنا عام بات بن چکی ہے، جس سے عوامی اقتدار کمزور پڑ گیا ہے۔
افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ بیوروکریسی، جس کا کام صرف عوامی نمائندوں کے فیصلوں پر عمل درآمد کرنا ہے، اکثر پالیسی سازی میں پسِ پردہ کردار ادا کرتی ہے۔ اسی طرح عدلیہ بھی بعض اوقات ایسے فیصلے دیتی ہے جو پارلیمان کے اختیارات میں مداخلت سمجھے جاتے ہیں۔ اس طرح کی ادارہ جاتی مداخلتوں نے نہ صرف جمہوری عمل کو متاثر کیا بلکہ عوام میں یہ تاثر پیدا کیا کہ اصل طاقت عوامی نمائندوں کے بجائے غیر منتخب اداروں کے پاس ہے۔
اس صورتحال کا ذمہ دار کون ہے؟ جواب سادہ ہے: خود عوام۔ جب تک عوام اپنے ووٹ کو صرف تبدیلی کا نعرہ سمجھتے رہیں گے اور سیاستدانوں کو مسلسل کرپٹ یا ناکام کہتے رہیں گے، جمہوریت کبھی مستحکم نہیں ہو سکتی۔ اصل جمہوری کامیابی تب ممکن ہے جب عوام سیاستدانوں کو بھی ایک ادارہ تسلیم کریں، جیسے عدلیہ اور فوج کو آئینی ادارے مانا جاتا ہے۔ سیاستدانوں کی تضحیک دراصل اپنی ہی رائے اور اپنے ہی ووٹ کی تضحیک ہے۔
یہ سمجھنا بھی ضروری ہے کہ بیوروکریسی اور عدلیہ عوامی فلاح کی براہِ راست ذمہ داری نہیں اٹھا سکتیں۔ یہ صرف انتظامی اور تکنیکی ادارے ہیں جن کا بنیادی کام عوامی نمائندوں کی بنائی گئی پالیسیوں پر عمل درآمد کرنا ہے۔ جب یہ ادارہ جاتی حدیں دھندلا جائیں تو حکومت کمزور ہو جاتی ہے اور ریاستی ڈھانچہ ٹکراؤ کا شکار ہو جاتا ہے۔
عوام کو سیاستدانوں پر تنقید ضرور کرنی چاہیے، لیکن یہ تنقید اُن کی پالیسیوں اور کارکردگی تک محدود ہونی چاہیے، نہ کہ اُن کی آئینی حیثیت کو کمزور کرنے کے لیے۔ اگر سیاست گالی بن جائے تو عوامی اقتدار غیر منتخب اداروں کے حوالے ہو جاتا ہے۔
یہ بھی سمجھنا ضروری ہے کہ اگر سیاستدان کمزور ہیں تو عوام کی ذمہ داری ہے کہ اُنہیں مضبوط بنائیں، تعمیری تنقید، تحقیق اور احتساب کے ذریعے، نہ کہ مکمل انکار کے رویے سے۔ نوجوانوں کو سیاست میں شمولیت پر فخر ہونا چاہیے، اور نمائندوں کو اختیار ہونا چاہیے کہ وہ عوام کی ضرورتوں کے مطابق قانون سازی اور پالیسی سازی کریں۔ صرف اسی صورت میں حقیقی جمہوریت پروان چڑھ سکتی ہے۔
جمہوریت کے استحکام کے لیے ادارہ جاتی توازن بحال کرنا ضروری ہے۔ ہر ادارے کو آئینی دائرے میں رہ کر کام کرنا چاہیے۔ عوامی نمائندوں کو طاقت واپس دینے کا پہلا قدم یہ ہے کہ عوام کو اپنی رائے کی اہمیت کا شعور دیا جائے۔ جب عوام جان لیں گے کہ اُن کی تقدیر اُن کے ووٹ سے جڑی ہے، تو نہ بیوروکریسی، نہ مقتدرہ اور نہ ہی عدلیہ اُن کے فیصلوں کو پامال کر سکے گی۔
اگر ہم واقعی ایک آزاد، بااختیار اور ترقی یافتہ پاکستان چاہتے ہیں تو ہمیں سیاستدانوں کو وہی آئینی مقام دینا ہوگا جو اُن کا حق ہے۔ ہمیں اُنہیں یہ اختیار دینا ہوگا کہ وہ عوام کی نمائندگی کریں، قانون بنائیں اور پالیسی تشکیل دیں۔ جب سیاستدان بااختیار ہوں گے تو عوام بھی حقیقی طور پر بااختیار ہو جائیں گے۔
آخر میں، جب تک عوام اپنے منتخب نمائندوں کی اہمیت نہیں سمجھیں گے، وہ کبھی خود بھی طاقتور نہیں بن سکیں گے۔ کیونکہ عوامی اختیار کا راستہ صرف جمہوریت سے گزرتا ہے، اور جمہوریت کا راستہ سیاستدانوں کے ذریعے ہی بنتا ہے۔