پاکستان 78 سال بعد: خواب یا ڈراؤنا خواب؟

[post-views]
[post-views]

ارشد محمود اعوان

پاکستان 14 اگست 2025 کو اپنی آزادی کی 78ویں سالگرہ منانے جا رہا ہے۔ یہ دن ہر سال روایتی جوش و خروش، پرچم کشائی، قومی ترانے اور رنگا رنگ تقریبات کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ مگر اس مرتبہ یہ سوال ایک قومی ضمیر کو جھنجھوڑنے کے مترادف ہے: کیا واقعی ہم جشن منانے کے قابل ہیں؟

معاشی غلامی: آزادی کا مذاق

جس قوم نے سامراج سے آزادی حاصل کی، آج وہ عالمی مالیاتی اداروں، خاص طور پر آئی ایم ایف، کی شرائط پر سانس لے رہی ہے۔ پاکستان کی خودمختاری اب بجٹ اجلاسوں میں نہیں بلکہ آئی ایم ایف کے نمائندوں کی میز پر طے ہوتی ہے۔ ہر قسط ایک نئی مہنگائی، ہر معاہدہ عوام پر ایک نیا بوجھ۔ سوال یہ ہے کہ اگر ہمارے فیصلے ہم خود نہیں کر سکتے، تو یہ کیسی آزادی ہے؟

مہنگائی کا ننگا ناچ

پاکستان کی گلی گلی، کوچہ کوچہ، مہنگائی نے وحشت کا بازار گرم کر رکھا ہے۔ آٹا، چینی، گھی، دال، سبزیاں، دوا، پیٹرول، بجلی— سب اشیاء ضروریہ عوام کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں۔ روزانہ اخباروں میں خودکشی کی خبریں اس معاشی بربادی کی گواہی دے رہی ہیں۔ یہ وہ ملک ہے جہاں مزدور کی تنخواہ بیس ہزار ہے اور بجلی کا بل تیس ہزار آتا ہے۔ کیا اسی دن کے لیے ہم نے قربانیاں دیں؟

توانائی کا بحران یا عوام کا تعذیب خانہ؟

بجلی کے نرخ اب محض اقتصادی مسئلہ نہیں، بلکہ ایک انسانی بحران کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ “استعمال کم کرو، بل زیادہ دو” کے فارمولے نے لاکھوں خاندانوں کو اندھیروں میں دھکیل دیا ہے۔ لوڈ شیڈنگ کا عذاب اور مہنگے بلوں کا شکنجہ، دونوں نے عام آدمی کی زندگی اجیرن بنا دی ہے۔

دہشت گردی: آزادی کا خون آلود سایہ

بلوچستان اور خیبر پختونخوا ایک بار پھر خون میں نہا رہے ہیں۔ ریاست کی رٹ کمزور اور عسکریت پسندی کا زور بڑھتا جا رہا ہے۔ عوام خوف کے سائے میں جیتے ہیں، اور سیاسی قیادت الزامات کی دلدل میں پھنسی ہے۔ داخلی سلامتی کی یہ صورت حال خود آزادی کے بنیادی مفہوم پر سوالیہ نشان ہے۔

مافیاز کا راج: ریاست بمقابلہ مفادات

چینی، گھی، آٹا، ادویات، پیٹرول— ہر شعبے میں مافیاز نے پنجے گاڑ رکھے ہیں۔ عوام کے لیے بازار مہنگا اور مافیاز کے لیے خزانہ سستا۔ حکومتیں بدلتی رہیں مگر کارٹل کا تسلط کم نہ ہوا۔ ریاستی ادارے اگر اشرافیہ کے خادم بن جائیں تو پھر عام آدمی کہاں جائے؟

نتیجہ: کیا یہ وہی پاکستان ہے؟

78 برس پہلے قائداعظم نے ایک فلاحی، خودمختار، انصاف پر مبنی اور مساوات سے بھرپور ریاست کا خواب دیکھا تھا۔ آج ہم جس پاکستان میں کھڑے ہیں، وہ خواب نہیں، ایک مسلسل ڈراؤنا خواب ہے۔ ہمارے نوجوان ملک چھوڑنے کی منصوبہ بندی کرتے ہیں، مائیں بچوں کی فیس کے لیے زیور بیچتی ہیں، اور غریب بجلی کا بل لے کر خودکشی کرنے پر مجبور ہیں۔

یہ آزادی اگر صرف حکمران اشرافیہ، بیوروکریسی، اور چند سرمایہ داروں کے لیے ہے تو پھر باقی قوم کے لیے یہ دن محض ایک یاد دہانی ہے—یاد دہانی اس تلخ حقیقت کی کہ آزادی کا مطلب صرف پرچم لہرانا نہیں، بلکہ عوامی وقار، معاشی تحفظ اور ریاستی انصاف کی ضمانت ہے۔

جب تک ہم اپنی اجتماعی ترجیحات، نظامِ معیشت، اور سیاسی اخلاقیات کو ازسرنو ترتیب نہیں دیتے، ہر یومِ آزادی صرف ایک دکھ بھری رسم، ایک جھوٹی تسلی، اور ایک خاموش احتجاج بن کر رہ جائے گا۔

کیا ہم اگلے سال بھی یہی اداریہ لکھنے پر مجبور ہوں گے؟ یا اب بھی وقت ہے کہ ہم جشن کی بجائے احتساب سے آغاز کریں؟

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos