آئین کی لاش پر اقتدار کی رقصاں محفلیں

[post-views]
[post-views]

تحریر: مبشر ندیم

پاکستان کو ایک آئینی ریاست بنے 78 برس بیت چکے ہیں۔ ہمارے پاس ایک تحریری آئین ہے جو 1973 میں متفقہ طور پر منظور ہوا، جس میں ہر شہری کے بنیادی حقوق، ریاستی ڈھانچے، عدالتی اختیارات اور انتظامی ذمہ داریاں واضح طور پر درج ہیں۔ لیکن آج جب ہم اپنے گردوپیش پر نظر ڈالتے ہیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے جیسے آئین صرف کتابوں، عدالتوں کی الماریوں یا حلف ناموں کی حد تک محدود ہو کر رہ گیا ہے۔ زمینی حقائق اس سے یکسر مختلف اور تشویشناک ہیں۔

انصاف کا جنازہ

پاکستان میں انصاف کا معیار طبقاتی بن چکا ہے۔ طاقتور مجرم قانون سے بالاتر ہیں جبکہ عام شہری کے لیے انصاف ایک خواب سے بڑھ کر کچھ نہیں۔ اعلیٰ عدلیہ کے فیصلے دنوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں اور ماتحت عدالتوں میں برسوں مقدمے لٹکے رہتے ہیں۔ حالیہ رپورٹ کے مطابق پاکستان میں اس وقت تقریباً 24 لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں، جن میں سے صرف سپریم کورٹ میں 56 ہزار سے زائد مقدمات فیصلہ کے منتظر ہیں۔ یہ صرف عدالتی تاخیر کا معاملہ نہیں، بلکہ پورے نظامِ عدل کی بے بسی اور بے حسی کا عکس ہے۔

اخلاقی زوال اور معاشرتی گراوٹ

قوموں کی تعمیر محض معیشت یا عسکری طاقت سے نہیں بلکہ اخلاقی اقدار اور سماجی ضمیر سے ہوتی ہے۔ بدقسمتی سے ہم بطور قوم اخلاقی پستی کی آخری حدوں کو چھو رہے ہیں۔ مدارس میں بچوں کے ساتھ زیادتیوں کے کیس محض اعداد و شمار نہیں بلکہ ایک اجتماعی اخلاقی سانحہ ہیں۔ صرف 2024 میں بچوں سے زیادتی کے 4000 سے زائد کیس رپورٹ ہوئے، جن میں سے ایک بڑی تعداد تعلیمی و مذہبی اداروں سے متعلق ہے۔ سزا کا نہ ہونا مجرموں کو مزید بے باک بناتا جا رہا ہے۔

غربت، خودکشیاں اور بے بسی

پاکستان میں غربت کی شرح مسلسل بڑھ رہی ہے۔ ورلڈ بینک کے مطابق 2023 کے آخر تک تقریباً 40 فیصد پاکستانی خطِ غربت سے نیچے زندگی گزار رہے تھے۔ مہنگائی نے غریب کے لیے جینا محال کر دیا ہے۔ خودکشی کے واقعات میں 27 فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے، جن میں اکثریت ان افراد کی ہے جو معاشی بوجھ اٹھانے سے قاصر تھے۔ ریاست کی جانب سے فلاحی اقدامات کا شور تو بہت ہوتا ہے، مگر ان کی رسائی اور شفافیت نہ ہونے کے برابر ہے۔

اداروں پر مافیاز کا قبضہ

یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں کئی ریاستی ادارے آج مافیاز کے زیرِ اثر ہیں—چاہے وہ چینی مافیا ہو، آٹا مافیا، ادویات مافیا یا پھر زمینوں پر قبضہ مافیا۔ طاقتور طبقہ قانون سے کھیلتا ہے اور کمزور فرد قانون کے نیچے کچلا جاتا ہے۔ نیب ہو یا ایف آئی اے، ہر ادارے کو مخصوص مفادات کے لیے استعمال کیا جاتا ہے، اور یہ استعمال اکثر سیاسی ہدف بندی کے لیے کیا جاتا ہے۔

آئینی ریاست یا مافیا ریاست؟

جب ریاستی ادارے محض مخصوص طبقات کے مفادات کے تحفظ کا ذریعہ بن جائیں، جب عدالتیں دوہرا معیار اپنائیں، جب مدرسے بچوں کے لیے پناہ گاہ کے بجائے خوف کی علامت بن جائیں، جب ایک غریب ماں اپنے بچوں کو بھوکا دیکھ کر زہر دے دے—تو پھر یہ سوال بجا ہے کہ کیا ہم واقعی ایک آئینی ریاست میں رہ رہے ہیں؟ کیا یہ وہ پاکستان ہے جس کے آئین میں لکھا ہے کہ “ریاست ہر شہری کو جان و مال، عزت و آبرو کا تحفظ دے گی”؟

امید کی کوئی صورت؟

یہ حالات ہمیں مکمل مایوسی کی طرف دھکیل سکتے ہیں، لیکن سوال یہ بھی ہے کہ کیا ہم ہر بار مایوس ہو کر بیٹھ جائیں؟ شاید یہی وقت ہے کہ ہم قومی ضمیر کو جھنجھوڑیں۔ دانشور، صحافی، وکلا، اساتذہ اور عام شہری—سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ آئین کو صرف حوالہ نہیں، حوالگی کا ذریعہ بنانا ہوگا۔ ورنہ یہ بے آئینی صرف دستاویزی نہیں، ایک اجتماعی قومی ناکامی بن کر ہماری تاریخ کا سیاہ باب لکھ دے گی۔

اختتامیہ

ریاست کو اگر واقعی آئینی بنانا ہے تو قانون کی بالادستی، ادارہ جاتی اصلاحات، عدالتی خودمختاری، احتساب میں شفافیت، اور معاشرتی اخلاقیات کی بحالی ناگزیر ہے۔ آئین تبھی زندہ رہتا ہے جب ریاست اور عوام دونوں اسے اپنا عہد اور اپنی رہنمائی سمجھیں—ورنہ “آئین کے ہوتے ہوئے بھی بے آئین” جیسے جملے ہماری شناخت بن جائیں گے۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos