نوشین رشید
پانچ اگست کا دن محض ایک احتجاجی کال کا دن نہیں بلکہ پاکستان کی سیاسی تاریخ میں جمہوریت اور آمریت کے درمیان جاری کشمکش کی ایک اور قسط بن چکا ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف کی جانب سے آج ملک گیر احتجاج کی کوشش، جمہوری فضا کو تازہ ہوا دینے کی ایک علامت ہے، مگر ریاستی رویہ اس کوشش کو پوری قوت سے کچلنے پر آمادہ نظر آ رہا ہے۔
ریاست جس منظم انداز سے آج کے دن اس احتجاج کو سبوتاژ کر رہی ہے، وہ صرف ایک سیاسی جماعت کے خلاف نہیں بلکہ پورے سیاسی نظام، جمہوری اقدار، اور عوامی حقِ رائے دہی کے خلاف ایک سخت پیغام ہے: ’’اختلاف کی اجازت نہیں، مزاحمت جرم ہے، اور سوال بغاوت۔‘‘
احتجاج کی اجازت کیوں نہیں؟ کیا یہ جمہوری حق نہیں؟
ایک بنیادی سوال جو آج ہر باشعور شہری کو پریشان کر رہا ہے، وہ یہ ہے کہ آخر پاکستان تحریکِ انصاف کو پرامن احتجاج کی اجازت کیوں نہیں دی جا رہی؟ کیا جلسہ، جلوس اور ریلی نکالنا آئینِ پاکستان کے تحت ہر سیاسی جماعت کا جمہوری حق نہیں؟ اگر دیگر جماعتوں کو سڑکوں پر نکلنے کی آزادی حاصل ہے تو صرف تحریکِ انصاف کو اس حق سے محروم رکھنا کھلا امتیاز اور سیاسی تعصب نہیں تو اور کیا ہے؟
احتجاج کرنا نہ تو بغاوت ہے، نہ جرم، بلکہ ایک آئینی اظہارِ رائے ہے۔ اگر ریاست اس بنیادی حق کو طاقت، خوف، اور جبر کے ذریعے کچلے گی تو اس کے نتائج صرف ایک جماعت تک محدود نہیں رہیں گے—یہ کل کو پورے سیاسی نظام کی جڑیں ہلا دیں گے۔
گرفتاریوں، چھاپوں اور چادر و چار دیواری کی پامالی کا سیاسی مفہوم
آج پنجاب بھر میں تحریکِ انصاف کے کارکنوں، خواتین رہنماؤں، سابق اراکین اسمبلی، اور ضلعی قیادت کے گھروں پر چھاپوں کا سلسلہ جاری ہے۔ چادر اور چار دیواری کا تقدس پامال کیا جا رہا ہے، شہریوں کو بلا وارنٹ اُٹھایا جا رہا ہے، اور ان کے خاندانوں کو ذہنی اذیت کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ یہ تمام کارروائیاں اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ حکومتی بیانیہ سے اختلاف رکھنے والوں کے لیے پاکستان میں جمہوری گنجائش مسلسل تنگ ہوتی جا رہی ہے۔
منتخب نمائندے، نااہلیاں، اور سیاسی انجینئرنگ کا تسلسل
پانچ اگست کے احتجاج کو روکنے کے لیے صرف سڑکوں پر جبر کافی نہیں سمجھا گیا، بلکہ اس سے پہلے کئی مہینوں سے ایک منظم مہم کے ذریعے منتخب نمائندوں کو نااہل کیا گیا ہے۔ کبھی اثاثے چھپانے کا الزام، کبھی عوامی اجتماعات میں تقریر، اور کبھی محض سیاسی وابستگی کی بنیاد پر ان افراد کو اسمبلیوں سے باہر پھینک دیا گیا ہے، جنہیں لاکھوں ووٹرز نے منتخب کیا تھا۔
یہ سلسلہ آج بھی جاری ہے، اور اس نے پارلیمان کی ساکھ کو مجروح کیا ہے۔ جب نمائندے ایک ایک کر کے ہٹائے جا رہے ہوں، اور ان کی جگہ کٹھ پتلی سیاست کو فروغ دیا جا رہا ہو، تو عوام کا ریاستی نظام سے اعتماد اٹھنا فطری عمل ہے۔
میڈیا کا محتاط بیانیہ: سچ کی موت
آج جب تحریکِ انصاف کا احتجاج جاری ہے، تو ریاستی و نجی میڈیا کا رویہ حیرت انگیز حد تک جانبدار ہے۔ نہ گرفتاریوں کی فوٹیج دکھائی جا رہی ہے، نہ مظاہرین کی آواز سنی جا رہی ہے، اور نہ عوامی ردعمل کو کوئی وقعت دی جا رہی ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ ایک سوچی سمجھی پالیسی کے تحت اس دن کی اہمیت کو میڈیا سے اوجھل رکھا جا رہا ہے تاکہ بین الاقوامی اور اندرونی سطح پر ایک ’’سب اچھا ہے‘‘ کا بیانیہ پیش کیا جا سکے۔
خاموش اکثریت اور آج کا دن
پانچ اگست کا دن اس خاموش اکثریت کے لیے بھی ایک آئینہ ہے جو سب کچھ دیکھ کر بھی خاموش ہے۔ یہ دن صرف ایک احتجاج کی کال نہیں، بلکہ ریاست اور عوام کے درمیان ٹوٹتے ہوئے اعتماد کی علامت ہے۔ جس طرح لوگوں کو ڈرایا گیا، جس طرح گلیوں میں خوف کا راج قائم کیا گیا، وہ اس بات کا ثبوت ہے کہ نظام طاقتور کے لیے ہے، اور باقی سب فقط تماشائی۔
مگر سوال یہ ہے کہ کب تک؟ کب تک ووٹ دینے والوں کے نمائندے یوں گھروں سے اُٹھائے جاتے رہیں گے؟ کب تک اختلافِ رائے کو ریاستی دشمنی سمجھا جائے گا؟ اور کب وہ دن آئے گا جب جمہوریت محض نعرہ نہیں، ایک طرزِ عمل بنے گی؟