‏تحریک انصاف، وکلاء برادری اور احتجاجی سیاست

[post-views]
[post-views]

ادارتی تجزیہ

تحریک انصاف کو جب 9 مئی کے بعد ریاستی جبر، گرفتاریوں اور قیادت کی سطح پر شدید دباؤ کا سامنا کرنا پڑا، تو اس صورتحال میں پارٹی کے متعدد سیاسی کارکن قید یا منظر سے غائب ہو گئے، جبکہ کئی دیگر افراد نے پارٹی چھوڑ دی۔ اس سیاسی بحران اور تنظیمی خلاء کے نتیجے میں جو خلا پیدا ہوا، وہ وقتی طور پر وکلاء برادری نے پُر کیا۔ وکلاء نے نہ صرف قانونی محاذ پر پارٹی کی نمائندگی کی بلکہ احتجاجی بیانیے کو بھی کچھ حد تک سہارا دیا۔ اس سے بظاہر یہ تاثر پیدا ہوا کہ تحریک انصاف میں ایک نئی صف سامنے آ رہی ہے جو وکالت، آئین اور قانون کے ذریعے پارٹی کی جدوجہد کو آگے بڑھائے گی۔

تاہم، وقت کے ساتھ یہ واضح ہوتا گیا کہ وکلاء اس خلا کو پائیدار اور بھرپور انداز میں پُر نہیں کر سکے۔ اگرچہ انہوں نے قانونی دفاع، میڈیا بیانیہ اور عدالتی محاذ پر کچھ کامیابیاں حاصل کیں، مگر وہ سیاسی سطح پر عوامی رابطے، اسٹریٹ موبلائزیشن اور پارٹی تنظیم نو کے حوالے سے کوئی واضح اور مؤثر کردار ادا نہ کر سکے۔ اس کا ایک بنیادی سبب یہ بھی ہے کہ وکلاء عمومی طور پر پروفیشنل طبقے سے تعلق رکھتے ہیں، جو نظریاتی طور پر تو کسی پارٹی کے ساتھ وابستہ ہو سکتے ہیں، لیکن عملی سیاست، خاص طور پر احتجاجی تحریکوں میں ان کی شمولیت محدود ہوتی ہے۔

تحریک انصاف کی تنظیمی ساخت میں وکلاء کی نمایاں موجودگی قابلِ توجہ ہے۔ نہ صرف ضلعی سطح پر بلکہ قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلیوں میں بھی تحریک انصاف کے نمائندوں میں بڑی تعداد وکلاء پر مشتمل رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ وکلاء بار کونسلز اور ایسوسی ایشنز میں بھی تحریک انصاف سے وابستہ افراد نے کئی مواقع پر کامیابی حاصل کی ہے، جو یہ ظاہر کرتا ہے کہ قانونی برادری کا جھکاؤ مجموعی طور پر تحریک انصاف کی طرف رہا ہے۔

مگر سوال یہ ہے کہ اتنی بڑی تعداد میں موجودگی کے باوجود، وکلاء احتجاجی سیاست میں قیادت کیوں نہ دے سکے؟ سیاسی تجزیہ کاروں کے مطابق، وکلاء کو عمومی طور پر پروفیشنل اور ٹیکنوکریٹک کیٹیگری میں شمار کیا جاتا ہے۔ ان کا انداز سیاست زیادہ تر آئینی اور ادارہ جاتی سطح پر ہوتا ہے۔ انہیں عدالتوں، پریس کانفرنسز، یا قانونی پٹیشنز میں تو متحرک دیکھا جا سکتا ہے، لیکن سڑکوں پر احتجاج، نعرے بازی یا لانگ مارچ جیسے اقدامات میں ان کی شرکت محدود ہوتی ہے۔ یہ کام سیاسی کارکنان کا ہوتا ہے، جن کی تربیت اور ذہنیت عوامی سطح پر تحریک چلانے کے لیے موزوں ہوتی ہے۔

اس پس منظر میں، اگرچہ وکلاء نے تحریک انصاف کی قانونی جنگ میں ایک حد تک اہم کردار ادا کیا، لیکن وہ احتجاجی سیاست میں کوئی فیصلہ کن مقام حاصل نہیں کر سکے۔ تحریک انصاف کو چاہیے کہ وہ وکلاء کی اس ذہنی، قانونی اور ادارہ جاتی طاقت کو منظم طریقے سے استعمال کرے، مگر احتجاجی سیاست کی قیادت اپنے سیاسی کارکنوں اور عوامی نمائندوں کے ذریعے ہی آگے بڑھائے۔ مستقبل کی حکمت عملی میں یہ تقسیم واضح طور پر متعین کرنا ہوگی کہ کون سا طبقہ کہاں کردار ادا کرے، تبھی ایک مؤثر اور پائیدار تحریک وجود میں آ سکے گی۔

یوں تحریک انصاف کے لیے یہ ایک اسٹریٹیجک سوال بن چکا ہے کہ وکلاء کو اپنی سیاسی حکمت عملی میں کس مقام پر کھڑا کرے۔ بصورت دیگر، اگر پروفیشنلز سے سیاسی کارکنوں جیسا کردار لینے کی کوشش کی گئی تو نہ صرف وہ ڈیلیور نہیں کر سکیں گے بلکہ تحریک بھی کمزور پڑ سکتی ہے، جیسا کہ گزشتہ چند ماہ کے واقعات سے ظاہر ہوا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos