ایران کی امریکا کے ساتھ براہِ راست جوہری مذاکرات پر مشروط آمادگی

[post-views]
[post-views]

ایران نے اشارہ دیا ہے کہ وہ مناسب حالات میں امریکا کے ساتھ براہِ راست جوہری مذاکرات پر غور کر سکتا ہے۔ یہ بیان ایران کے پہلے نائب صدر محمد رضا عارف نے دیا، جو موجودہ کشیدہ جغرافیائی و سیاسی صورتحال میں تہران کی مشروط سفارتی آمادگی کو ظاہر کرتا ہے۔

ریپبلک پالیسی ویب سائٹ فالو کریں

ایرانی میڈیا سے گفتگو میں محمد رضا عارف نے واضح کیا کہ ایران کی ایسی کسی بھی بات چیت میں شمولیت صرف اسی وقت ممکن ہے جب حالات “موزوں” ہوں۔ ان کا کہنا تھا کہ تہران مذاکرات کا مخالف نہیں ہے، لیکن یہ صرف اسی صورت میں ہوں گے جب یہ ایران کے قومی اور اسٹریٹجک مفادات سے ہم آہنگ ہوں۔ یہ مؤقف ایران کی اس وسیع تر پالیسی کی عکاسی کرتا ہے کہ وہ بات چیت کے لیے تیار ہے، مگر اپنی خودمختاری پر سمجھوتہ نہیں کرے گا۔

ریپبلک پالیسی یوٹیوب فالو کریں

امریکا کے دیرینہ مطالبے پر تنقید کرتے ہوئے عارف نے کہا کہ ایران سے یورینیم کی افزودگی مکمل ختم کرنے کا تقاضا دراصل “ایک مذاق” ہے۔ ان کے یہ الفاظ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ تہران ایسے مطالبات کو غیر حقیقی سمجھتا ہے جو اس کے پُرامن ایٹمی ٹیکنالوجی کے حق کو نظرانداز کرتے ہیں—جو بین الاقوامی قوانین کے تحت تسلیم شدہ ہے۔

ریپبلک پالیسی ٹوئٹر فالو کریں

یہ بیان ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی کی عالمی کوششیں تعطل کا شکار ہیں۔ تہران اور واشنگٹن کے درمیان اعتماد کی شدید کمی کے باعث، کسی بھی براہِ راست مذاکرات کے لیے باہمی اعتماد سازی اور ایسے اقدامات ضروری ہوں گے جو ایران کی خودمختاری کا احترام کریں اور ساتھ ہی عالمی خدشات کو بھی مدنظر رکھیں۔

ریپبلک پالیسی فیس بک فالو کریں

پالیسی کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ پیش رفت اس حقیقت کو اجاگر کرتی ہے کہ سفارت کاری، قومی وقار اور اسٹریٹجک سودے بازی کس قدر گہرے تعلق میں ہیں۔ ایران کا مؤقف واضح ہے: بات چیت ممکن ہے، لیکن اس کے جوہری حقوق کی قیمت پر نہیں۔ امریکا کے لیے چیلنج یہ ہے کہ وہ اپنے عدم پھیلاؤ کے اہداف کو ایران کے افزودگی کے حق کے ساتھ کس طرح ہم آہنگ کرے۔

ریپبلک پالیسی ٹک ٹاک فالو کریں

آخر میں، ایران کی مشروط آمادگی ایک ممکنہ سفارتی موقع فراہم کرتی ہے، مگر اس کے ساتھ پیچیدگیاں بھی جڑی ہیں۔ حقیقی پیش رفت اسی وقت ممکن ہے جب دونوں فریق زیادہ سے زیادہ مطالبات سے پیچھے ہٹ کر ایک ایسے فریم ورک کی طرف بڑھیں جو باہمی خدشات کو حل کرے اور اعتماد بحال کرے۔ بصورت دیگر، مذاکرات کا امکان محض بیانیے تک محدود رہے گا۔

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos