تجزیاتی اداریہ
قائداعظم محمد علی جناح، ایک لیڈر اور اسٹیٹس مین کے طور پر، نہ صرف اپنے دور میں قیادت کا معیار سمجھے جاتے تھے بلکہ آج بھی رہنمائی کا استعارہ ہیں۔ انگریزی میں ان کی تقاریر، چاہے عام عوام کے لیے مکمل طور پر قابلِ فہم نہ بھی ہوتیں، ان کے لہجے، اعتماد اور شخصیت کی تاثیر سے لوگوں کے دل جیت لیتی تھیں۔ اس شخصیت کی کشش کا اثر یہ تھا کہ سننے والے ان کے الفاظ کا مفہوم نہ بھی سمجھیں، ان کے وژن کا احساس ضرور پاتے تھے۔
Follow Republic Policy Website
افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ ہم قائداعظم کو صرف تقریروں، تصاویر اور تقریبات میں یاد کرتے ہیں، مگر ان کے اصل نظریات اور پالیسی اصولوں کو ریاستی فیصلوں کا حصہ نہیں بناتے۔ جناح نے پاکستان کو ایک وفاقی ریاست کے طور پر دیکھنے کی وکالت کی تھی، جہاں اختیارات کی تقسیم اور وفاقی ڈھانچے کا احترام بنیادی اصول ہوں۔ لیکن ہماری تاریخ میں زیادہ تر حکمرانی ایک یونٹری طرز پر رہی، جس میں اختیارات مرکز میں مرتکز رہے۔
Follow Republic Policy YouTube
قائداعظم نے اقلیتوں کے مساوی حقوق، جمہوریت کی بالادستی، اور عوامی مینڈیٹ کی سپرمیسی کو ریاستی استحکام کا ستون قرار دیا تھا۔ عملی طور پر نہ تو اقلیتوں کو وہ مساوی مواقع ملے جن کا وعدہ کیا گیا تھا، نہ صوبوں کو اختیارات کی وہ سطح دی گئی جو ایک مضبوط فیڈریشن میں ہوتی ہے، اور نہ ہی عوامی رائے کو پالیسی سازی میں مستقل اہمیت دی گئی۔
Follow Republic Policy Twitter
یہ تضاد ہماری سیاسی تاریخ کا سب سے بڑا المیہ ہے۔ قائداعظم کا خواب ایک ایسی ریاست کا تھا جو قانون، مساوات، جمہوریت اور وفاقیت کی بنیاد پر استوار ہو۔ مگر ہم نے ان اصولوں کو نصابی کتابوں، یادگاروں اور تقریبات تک محدود کر دیا ہے۔ اگر پاکستان کو ایک حقیقی معنوں میں مضبوط اور مستحکم وفاق بنانا ہے تو جناح کے افکار کو پالیسی سازی کا حصہ بنانا ناگزیر ہے، ورنہ ہمارا سفر ترقی کے بجائے تضاد میں ہی الجھا رہے گا۔