برطانوی نشریاتی ادارے بی بی سی نے ایک تفصیلی رپورٹ میں یہ سنگین انکشاف کیا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی فوجیوں کی فائرنگ سے کم از کم 160 معصوم بچے جاں بحق ہوئے۔ رپورٹ کے مطابق ان ہلاکتوں میں زیادہ تر بچوں کو براہِ راست نشانہ بنایا گیا، اور 95 بچوں کو سر یا سینے پر گولی مار کر شہید کیا گیا۔ تشویش ناک پہلو یہ ہے کہ ان شہداء میں بڑی تعداد ایسے کم عمر بچوں کی تھی جن کی عمریں بارہ برس سے بھی کم تھیں۔
بی بی سی ورلڈ سروس کی تحقیق میں مزید بتایا گیا کہ نومبر 2023ء میں اسرائیلی کارروائیوں کے دوران دو اور چھ سال کی دو بچیاں بھی الگ الگ واقعات میں شہید ہوئیں۔ یہ دونوں بچیاں ان 160 سے زائد کم سن بچوں میں شامل تھیں جو جنگ کے دوران گولیوں کا نشانہ بنے۔ یہ اعداد و شمار نہ صرف بچوں کے خلاف براہِ راست طاقت کے استعمال کو اجاگر کرتے ہیں بلکہ انسانی حقوق کی شدید پامالی کو بھی واضح کرتے ہیں۔
انٹرنیشنل کمیٹی آف دی ریڈ کراس نے اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ دنیا کو یہ قبول نہیں کرنا چاہیے کہ بچوں کو اس پیمانے پر گولیوں کا نشانہ بنانا ایک معمولی یا “نیا معمول” (نیو نارمل) تصور کر لیا جائے۔ انسانی ضمیر کے لیے یہ ایک نہایت سنگین سوال ہے کہ کیا عالمی برادری اس صورتحال پر خاموش تماشائی بنی رہے گی۔
اقوام متحدہ کے جاری کردہ اعداد و شمار بھی صورتحال کی سنگینی کو نمایاں کرتے ہیں۔ جولائی 2023ء میں صرف غزہ کی پٹی سے تقریباً 13 ہزار بچے شدید غذائی قلت اور بھوک کے باعث اسپتالوں میں داخل کیے گئے۔ یہ اعداد و شمار اس بات کا ثبوت ہیں کہ جنگ نے نہ صرف براہِ راست جانی نقصان پہنچایا بلکہ معصوم بچوں کی زندگیوں کو بنیادی سہولیات کی کمی اور غذائی بحران کے ذریعے بھی شدید خطرے سے دوچار کر دیا۔
ادھر غزہ میں اسرائیلی بمباری کا سلسلہ بھی جاری رہا جس کے نتیجے میں مزید 41 فلسطینی شہید ہوگئے۔ عرب ذرائع ابلاغ کے مطابق ان شہداء میں وہ 16 افراد بھی شامل ہیں جو انسانی امداد کے منتظر تھے۔ یہ واقعہ اس امر کی نشاندہی کرتا ہے کہ محصور عوام نہ صرف جنگی کارروائیوں بلکہ امداد کی راہ میں حائل رکاوٹوں کے باعث بھی موت کا سامنا کر رہے ہیں۔