ارشد محمود اعوان
ریاستی اعزازات اور سیاسی، انتظامی اور فوجی علامتیں پاکستان کے ریاستی ڈھانچے اور اجتماعی رویوں کی جھلک پیش کرتی ہیں۔ ہر قوم کے اصل ہیروز وہ ہوتے ہیں جو علم، تحقیق، جدت اور تخلیقی صلاحیت کے ذریعے ملک اور معاشرے کی خدمت کرتے ہیں۔ لیکن پاکستان میں اعزازات کی تقسیم کا نظام ایک محدود سوچ کے تحت زیادہ تر بیوروکریسی، فوجی اداروں اور سیاسی وابستگیوں تک محدود ہے۔ اس سے یہ تصور پیدا ہوتا ہے کہ اصل قدر و منزلت محنت اور ہنر کی بجائے طاقت اور عہدے میں ہے۔
ریپبلک پالیسی ویب سائٹ فالو کریں
انتظامی نظام کے تناظر میں دیکھا جائے تو اعزازات کا بڑا حصہ عہدوں اور سرکاری رتبوں سے وابستہ افراد کو دیا جاتا ہے، نہ کہ ان کی ذاتی خدمات یا سائنسی و تخلیقی کارکردگی کو۔ اس رویے سے یہ تاثر جڑ پکڑتا ہے کہ ادارہ اور اس کی حیثیت ہی اصل معیار ہے، فرد کی صلاحیت نہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ایک ایسا کلچر ابھرتا ہے جس میں سرکاری عہدے ہی سماجی ترقی کی اصل کسوٹی سمجھے جاتے ہیں۔
ریپبلک پالیسی یوٹیوب فالو کریں
فوجی خدمات کو بھی قومی اعزازات میں نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ پاکستان کی تاریخ اور سیاست میں فوج کی طاقت نے ایک ایسا بیانیہ تشکیل دیا ہے کہ کامیابی اور عزت کا راستہ تخلیق یا علم نہیں بلکہ طاقتور اداروں سے وابستگی ہے۔ یہ سوچ دیگر شعبوں میں موجود ٹیلنٹ کو دبانے کا سبب بنتی ہے اور قومی شعور میں طاقت کے اداروں کی بالادستی کو مزید مستحکم کرتی ہے۔
سیاسی میدان میں بھی اعزازات اکثر وفاداری اور تعلقات کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ سیاسی جماعتوں کے قریب رہنے اور وابستگی رکھنے والے افراد کو اصل میرٹ اور کارکردگی پر ترجیح دی جاتی ہے۔ اس عمل سے نہ صرف اعزازات کا وقار کم ہوتا ہے بلکہ معاشرے کو یہ پیغام ملتا ہے کہ سیاسی وابستگی تخلیقی صلاحیت اور محنت سے زیادہ اہم ہے۔
ریپبلک پالیسی فیس بک فالو کریں
یہ سب رجحانات مل کر ایک ایسا ماحول پیدا کرتے ہیں جہاں سائنسدان، محققین، فنکار، کھلاڑی اور جدت کار پسِ پشت ڈال دیے جاتے ہیں۔ ریاستی سطح پر ان کے لیے نہ عزت ملتی ہے نہ ادارہ جاتی سہارا۔ بالآخر، بہترین دماغ یا تو ملک چھوڑ جاتے ہیں یا اپنے ہی وطن میں خاموشی اختیار کر لیتے ہیں۔ یہ رویہ براہِ راست ترقی اور جدت کی رفتار کو متاثر کرتا ہے اور نئی نسل کو یہ پیغام دیتا ہے کہ اگر وہ کسی طاقتور ادارے کا حصہ نہیں تو ان کی کامیابی کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔
ریپبلک پالیسی ٹک ٹاک فالو کریں
پاکستان کو ایک تخلیقی اور جدید ریاست بنانے کے لیے اعزازات کے نظام میں بنیادی تبدیلی ضروری ہے۔ سیاسی، فوجی اور انتظامی علامتوں کی بجائے میرٹ، تحقیق، جدت اور کارکردگی کو معیار بنایا جائے۔ وہ لوگ جو سائنس، ٹیکنالوجی، فنونِ لطیفہ، کھیل اور ادب میں ملک کا نام روشن کریں، انہیں نہ صرف اعزاز دیا جائے بلکہ ان کی سرپرستی بھی کی جائے۔ صرف اسی طرح پاکستان ایک ایسا ملک بن سکتا ہے جو طاقت کے اداروں کے ساتھ ساتھ علم، فن اور تخلیق کے ہیروز کو بھی قومی ہیرو تسلیم کرے۔