جدید دنیا کو ایک نئے اور غیر روایتی بحران کا سامنا ہے: پلاسٹک آلودگی۔ حالیہ تحقیق سے یہ حقیقت سامنے آئی ہے کہ پلاسٹک کے باریک ذرات اب صرف ہوا، پانی اور خوراک تک محدود نہیں بلکہ انسانی دماغ تک بھی پہنچ گئے ہیں۔ یہ انکشاف نہ صرف سائنس کے میدان میں ایک نئی سمت کو اجاگر کرتا ہے بلکہ عالمی صحت، ماحولیات اور پالیسی سازی کے لیے ایک بڑا چیلنج بھی ہے۔
ریپبلک پالیسی ویب سائٹ ملاحظہ کریں
مائیکرو پلاسٹک ذرات اتنے باریک ہوتے ہیں کہ انسانی آنکھ انہیں دیکھنے سے قاصر ہے، لیکن ان کی موجودگی روزمرہ زندگی میں ناگزیر ہو چکی ہے۔ یہ ذرات سانس کے ذریعے پھیپھڑوں میں، خوراک کے ذریعے معدے اور گردوں میں، اور خون کے بہاؤ کے ذریعے دماغ جیسے حساس اعضا میں داخل ہو جاتے ہیں۔ یہ آلودگی خاموش مگر تباہ کن ہے، جو جسمانی نظام کو اندرونی سطح پر متاثر کر رہی ہے۔
ریپبلک پالیسی یوٹیوب پر فالو کریں
اگرچہ سائنس دانوں نے ابھی تک یہ قطعی طور پر ثابت نہیں کیا کہ یہ ذرات کس حد تک نقصان دہ ہیں، لیکن ابتدائی مطالعات نے خبردار کیا ہے کہ یہ خون کی باریک رگوں کو متاثر کر سکتے ہیں اور دماغی افعال کو کمزور بنا سکتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ مستقبل قریب میں یہ انسانی صحت کے لیے ایک بڑے بحران کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ یہ پہلو اس مسئلے کی سنگینی کو مزید بڑھا دیتا ہے۔
ریپبلک پالیسی ٹوئٹر پر فالو کریں
ماہرین کا موقف ہے کہ حتمی ڈیٹا کے انتظار میں وقت ضائع کرنا ایک بڑی غلطی ہوگی۔ جب دنیا پہلے ہی پلاسٹک آلودگی کے شدید اثرات سے دوچار ہے تو ضروری ہے کہ فوری اقدامات کیے جائیں۔ یہ اقدامات صرف سائنسی تحقیق تک محدود نہ رہیں بلکہ عالمی سطح پر قانون سازی، صنعتوں کی ذمہ داری اور صارفین کی شعوری تبدیلی کو بھی شامل کریں۔
ریپبلک پالیسی فیس بک پر فالو کریں
اعداد و شمار اس بحران کی شدت کو مزید نمایاں کرتے ہیں۔ سال 2000 سے اب تک دنیا میں پلاسٹک کی پیداوار دوگنی ہو چکی ہے اور ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر یہی رجحان جاری رہا تو 2060ء تک یہ تین گنا تک بڑھ جائے گی۔ اس بڑھتی ہوئی پیداوار کا مطلب یہ ہے کہ انسانی جسم اور ماحول دونوں میں پلاسٹک کی موجودگی ناگزیر سطح تک پہنچ جائے گی۔
ریپبلک پالیسی ٹک ٹاک پر فالو کریں
اس صورتحال کو صرف ایک ماحولیاتی مسئلہ سمجھنا غلط ہوگا۔ یہ ایک صحت عامہ کا مسئلہ ہے، ایک معاشی بحران ہے، اور ایک عالمی پالیسی چیلنج ہے۔ ترقی پذیر ممالک، جو پہلے ہی ماحولیاتی تبدیلیوں اور صحت کے مسائل سے دوچار ہیں، اس بحران سے سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ عالمی برادری کو چاہیے کہ وہ اس خطرے کو سنجیدگی سے لے اور ایک جامع حکمت عملی اپنائے تاکہ آنے والی نسلیں اس ناقابلِ تلافی بحران سے محفوظ رہ سکیں۔