صفیہ رمضان
دنیا کے سب سے بڑے ماہرینِ نسل کشی کے ادارے نے ایک تاریخی اور سخت اعلان کیا ہے: اسرائیل غزہ میں نسل کشی کر رہا ہے۔ تین صفحات پر مشتمل قرارداد میں “انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف جینوسائیڈ اسکالرز” نے یہ نتیجہ اخذ کیا کہ اسرائیل کے اقدامات اقوامِ متحدہ کے 1948 کنونشن میں درج قانونی تعریف کے عین مطابق نسل کشی کے زمرے میں آتے ہیں۔ اس قرارداد کو 86 فیصد ارکان کی حمایت حاصل ہوئی، جس میں وسیع تباہی، شہریوں کو منظم طور پر نشانہ بنانا، اور غزہ کی معاشرتی بقا و تجدید کی صلاحیت کو مٹانے کی پالیسیوں کو بیان کیا گیا ہے۔ یہ اب تک اسرائیل کی جنگ پر سب سے معتبر فردِ جرم ہے۔
انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف جینوسائیڈ اسکالر کوئی غیر معروف گروہ نہیں۔ اس کے پانچ سو سے زائد ارکان دنیا بھر میں موجود ہیں، جن میں ہولوکاسٹ کے نمایاں ماہرین بھی شامل ہیں۔ اس لیے ان کی رائے اس وجہ سے زیادہ وزنی ہے کہ یہ ایک ایسی برادری سے سامنے آئی ہے جو ہولوکاسٹ کی حقیقت سے بخوبی واقف ہے، وہی واقعہ جس نے “نسل کشی” کی اصطلاح کو جنم دیا۔ اسرائیل کے لیے، جو نازی مظالم کے بعد وجود میں آیا، یہ فیصلہ علامتی طور پر تباہ کن اور قانونی طور پر نہایت سنگین ہے۔
قرارداد بالکل واضح ہے۔ اس میں اسرائیل کی جانب سے غزہ کے تقریباً تمام گھروں کو مسمار کرنے، ہسپتالوں، اسکولوں اور امدادی قافلوں پر بمباری کرنے، اور خوراک و ادویات کی فراہمی روکنے جیسے اقدامات کا ذکر ہے۔ اس میں اسرائیلی رہنماؤں کے وہ بیانات بھی شامل ہیں جن میں غزہ کو “زمین بوس” کرنے اور “جہنم” بنانے کی بات کی گئی، جو فلسطینیوں کو غیر انسانی قرار دے کر انہیں ختم کرنے کے ارادے کو ظاہر کرتے ہیں۔ سب سے زیادہ ہولناک بات یونیسف کی وہ رپورٹ ہے جس میں کہا گیا ہے کہ صرف 22 ماہ میں 50 ہزار سے زائد بچے مارے گئے یا زخمی ہوئے ہیں — ایک ایسا عدد جو فلسطینی آبادی کے مستقبل کو بدل کر رکھ دیتا ہے۔
اسرائیل نے ان نتائج کو مسترد کرتے ہوئے قرار داد کو “قانونی برادری کے لیے شرمندگی” کہا اور اسے “حماس کے جھوٹ” پر مبنی قرار دیا۔ اسرائیلی حکام نے دعویٰ کیا کہ اصل میں وہ خود نسل کشی کا شکار ہیں اور یہ سب انہیں بدنام کرنے کی مہم ہے۔ لیکن یہ بیانات ان بنیادی شواہد کا جواب نہیں دیتے جن میں پوری برادریوں کا ملبہ میں تبدیل ہونا، قحط سالی، اور ایسی پالیسیاں شامل ہیں جو فلسطینی عوام کے اجتماعی وجود کو نشانہ بناتی ہیں، نہ کہ صرف عسکری اہداف کو۔
بین الاقوامی قانون واضح ہے۔ اقوامِ متحدہ کا کنونشن نسل کشی کو ان اقدامات کے طور پر بیان کرتا ہے جو کسی قومی، نسلی، لسانی یا مذہبی گروہ کو مکمل یا جزوی طور پر تباہ کرنے کے ارادے سے کیے جائیں۔ اس پیمانے پر ہزاروں افراد کا قتل عام، گھروں اور بنیادی ڈھانچے کی تباہی، اور نسل کی بقا کو روکنے کے اقدامات، سب نسل کشی کے زمرے میں آتے ہیں۔انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف جینوسائیڈ اسکالر کا کہنا ہے کہ اسرائیل کی جنگ حماس کے خلاف لڑائی سے آگے نکل کر پوری آبادی کو اجتماعی سزا دینے میں بدل گئی ہے۔ وہ اکتوبر 7 کے حماس حملے — جس میں 1200 افراد مارے گئے اور 251 کو یرغمال بنایا گیا — کو جرم تسلیم کرتے ہیں، لیکن ان کے مطابق اسرائیلی ردِعمل اندھا دھند، غیر متناسب اور شہریوں کو بڑے پیمانے پر نشانہ بنانے والا ہے۔
اعداد و شمار خود ایک المیے کی کہانی سناتے ہیں۔ غزہ کی وزارتِ صحت کے مطابق 63,557 افراد ہلاک اور 160,660 زخمی ہو چکے ہیں۔ ان اعداد کو بین الاقوامی ادارے قابلِ اعتبار مانتے ہیں۔ اسی دوران اقوامِ متحدہ کے تعاون سے قائم ادارے نے غزہ کے کچھ حصوں میں قحط کی تصدیق کی ہے۔ جبکہ بین الاقوامی قانون واضح طور پر کہتا ہے کہ بھوک کو جنگ کے ہتھیار کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا۔ لیکن اسرائیل کی سرحدوں، امدادی قافلوں اور ایندھن کی سخت پابندیاں اسی نتیجے تک پہنچا رہی ہیں۔
بین الاقوامی عدالت انصاف پہلے ہی جنوبی افریقہ کی طرف سے دائر نسل کشی کے مقدمے پر غور کر رہی ہے۔ اسرائیل کو جنوری 2026 تک دفاع کا موقع دیا گیا ہے، لیکن یہ مقدمہ عالمی سطح پر ایک اہم مثال قائم کر چکا ہے۔ اگرچہ اسرائیل نے اسے “یہود مخالف” مہم قرار دیا ہے، عدالت کا مقدمہ سننے کا فیصلہ اس بات کا ثبوت ہے کہ نسل کشی کا الزام اب محض کارکنوں کی زبان تک محدود نہیں رہا بلکہ اعلیٰ ترین عدالتی سطح پر زیرِ بحث ہے۔ انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف جینوسائیڈ کی قرارداد قانونی طور پر پابند نہ سہی، لیکن اس مقدمے کو فکری وزن اور ساکھ فراہم کرتی ہے۔
اسرائیل کے حمایتی اسے اپنی حفاظت اور حماس کی عسکری تنصیبات کے خاتمے کی کوشش قرار دیتے ہیں، مگر اسکولوں، ہسپتالوں، پناہ گزین کیمپوں اور پانی کی تنصیبات تک کی تباہی یہ ظاہر کرتی ہے کہ معاملہ فوجی ضرورت سے کہیں آگے ہے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں، حتیٰ کہ کچھ اسرائیلی تنظیمیں بھی، اب کھلے عام نسل کشی کی بات کر رہی ہیں۔ تمام غزہ کے باسیوں کو دشمن قرار دینا جنگجو اور شہری کے درمیان فرق کو مٹا دیتا ہے، جو بین الاقوامی قانون کا بنیادی اصول ہے۔
انٹرنیشنل ایسوسی ایشن آف جینوسائیڈ اسکالر کا فیصلہ عالمی سیاست کے دوہرے معیار کو بھی بے نقاب کرتا ہے۔ مغربی حکومتیں یہ کہہ کر احتیاط برتتی ہیں کہ صرف عدالت ہی نسل کشی کا تعین کر سکتی ہے، حالانکہ انہی کے قوانین دیگر جگہوں پر ماہرینِ علم کی رائے کو اہمیت دیتے ہیں۔ یہ ہچکچاہٹ سیاسی اتحاد کی عکاسی کرتی ہے، خصوصاً اسرائیل کے لیے مغرب کی غیر متزلزل عسکری اور سفارتی حمایت۔ لیکن غزہ کے عوام کے لیے یہ احتیاط صرف مزید تکالیف، بھوک اور اموات میں بدل رہی ہے۔
غزہ کی جنگ محض ایک تنازع نہیں، یہ عالمی برادری کے لیے ایک اخلاقی امتحان ہے۔ وہی ہولوکاسٹ جسے اسرائیل کے قیام کا جواز بنایا گیا تھا، نسل کشی کے تصور کی بنیاد ہے۔ اور آج اسی شعبے کے ماہرین اسرائیل کو نسل کشی کا مرتکب قرار دے رہے ہیں۔ یہ فیصلہ ایک تاریخی موڑ ہے، جو غزہ کے بحران کو روانڈا، بوسنیا اور دارفور جیسے سانحات کے زمرے میں لے آتا ہے۔ یہ صرف اسرائیل ہی نہیں بلکہ ان حکومتوں سے بھی جواب طلب کرتا ہے جو اس مہم کو سہارا دے رہی ہیں۔ اب نسل کشی کے الزام کو جھٹلانا نہ صرف تحقیق کو، بلکہ متاثرین کے دکھ کو اور تاریخ کے اسباق کو بھی جھٹلانے کے مترادف ہے۔