نفیسہ عارف
پنجاب حکومت نے اعلان کیا ہے کہ پنجاب میں سیلاب متاثرین کیلئے کلینک آن بوٹ شروع کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ اس منصوبے کا مقصد پانی میں گھرے دیہی اور پسماندہ علاقوں کے باسیوں کو فوری اور بنیادی طبی سہولیات فراہم کرنا ہے، تاکہ وہ اسپتالوں تک رسائی نہ ہونے کے باوجود علاج سے محروم نہ رہیں۔ بظاہر یہ ایک انسانی ہمدردی پر مبنی اقدام ہے، مگر ماضی کے ناکام منصوبوں کو دیکھتے ہوئے اس کے کامیاب ہونے پر کئی سنجیدہ سوالات اٹھ رہے ہیں۔
پاکستان میں صحت کے شعبے کے بیشتر حکومتی منصوبے بدانتظامی اور بدعنوانی کا شکار رہے ہیں۔ مفت ادویات، مشینری اور طبی سہولیات کے لیے مختص بجٹ اکثر کرپشن کی نذر ہو جاتا ہے۔ اگر کلینک آن بوٹ کے لیے خریدی گئی دوائیں، ایندھن یا دیگر وسائل میں بھی شفافیت نہ رہی تو یہ منصوبہ کاغذوں اور تقریروں تک محدود ہو کر رہ جائے گا۔
عملے کی فراہمی اور تربیت بھی ایک بڑا چیلنج ہے۔ خدشہ یہ ہے کہ بہت سی کشتیوں یا موبائل کلینکس میں ڈاکٹر باقاعدہ موجود نہ ہوں گے، یا صرف رسمی حاضری کے بعد روانہ ہو جائیں گے۔ اس کے نتیجے میں عوام کے اعتماد کو نقصان پہنچے گا۔ اس لیے حکومت کو تربیت یافتہ عملے کے ساتھ ساتھ ایک موثر اور سخت نگرانی کا نظام بھی بنانا ہوگا، تاکہ یہ کلینکس اپنی اصل ذمہ داری ادا کر سکیں۔
سیاسی تشہیر کا عنصر بھی نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان میں صحت جیسے حساس شعبے کو اکثر سوشل میڈیا پر تصویری کامیابی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ خطرہ یہ ہے کہ کلینک آن بوٹ بھی صرف افتتاحی تقریبات اور فوٹو سیشن تک محدود رہ جائے، جبکہ اصل متاثرین اس سے محروم رہیں۔
مزید برآں، اس منصوبے کی کامیابی کے لیے عملی رکاوٹیں بھی کم نہیں۔ کشتیوں یا بوٹس کو سیلاب زدہ علاقوں تک پہنچانے کے لیے ایندھن، مرمت اور رسائی کے موثر نظام کی ضرورت ہوگی۔ اگر ان عوامل کو نظرانداز کیا گیا تو یہ اسکیم بھی نمائشی پروجیکٹ بن جائے گی، جس سے عوام کا اعتماد مزید کمزور ہوگا۔
حقیقی کامیابی تب ہی ممکن ہے جب حکومت شفافیت، دیانت داری، تکنیکی مہارت اور عوامی شمولیت کو یقینی بنائے۔ بصورت دیگر، یہ منصوبہ بھی ماضی کے ناکام تجربات کی فہرست میں شامل ہو سکتا ہے۔ سیلاب متاثرین کو محض وعدوں اور تصاویر نہیں، بلکہ حقیقی اور مسلسل طبی سہولیات درکار ہیں۔