امریکا اور وینزویلا کے درمیان بڑھتی ہوئی کشیدگی ایک نئے مرحلے میں داخل ہو گئی ہے۔ امریکی حکام نے اعلان کیا ہے کہ وہ کیریبین خطے کے اہم جزیرے پورٹو ریکو میں دس جدید ترین ایف-35 پوشیدہ لڑاکا طیارے تعینات کر رہے ہیں۔ یہ اقدام بظاہر ڈرگ کارٹلز کے خلاف امریکی بحریہ کے آپریشن کا حصہ قرار دیا جا رہا ہے، تاہم اس کے خطے پر سیاسی اور عسکری اثرات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔
امریکی میڈیا رپورٹس کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے نہ صرف اس تعیناتی کو منشیات کے خلاف جنگ سے جوڑا ہے بلکہ یہ دعویٰ بھی کیا ہے کہ وینزویلا کے صدر بذاتِ خود ایک بڑے منشیات کارٹل کی قیادت کر رہے ہیں۔ یہ بیان واشنگٹن اور کراکس کے تعلقات میں مزید تناؤ پیدا کرنے کا باعث بنا ہے۔
وینزویلا کی قیادت نے ان الزامات کو سختی سے مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ امریکا دراصل منشیات کے خلاف کارروائی کے نام پر خطے کے قدرتی وسائل، خصوصاً تیل، پر قبضہ کرنا چاہتا ہے۔ وینزویلا کے صدر نے اسے امریکی سامراجی عزائم کی ایک اور مثال قرار دیا اور کہا کہ ان کا ملک اپنی خودمختاری پر کوئی سمجھوتہ نہیں کرے گا۔
کشیدگی میں مزید اضافہ اس وقت ہوا جب امریکی فورسز نے وینزویلا کی ایک کشتی کو نشانہ بنایا۔ امریکی حکام کا مؤقف ہے کہ اس کشتی میں اسمگلرز موجود تھے جو امریکا کے لیے منشیات لے جا رہے تھے۔ اس کارروائی کے نتیجے میں کشتی پر سوار تمام گیارہ افراد ہلاک ہو گئے۔ دوسری جانب وینزویلا نے اس کارروائی کو “ماورائے عدالت قتل” قرار دیا اور کہا کہ یہ بین الاقوامی قوانین اور انسانی حقوق کی صریح خلاف ورزی ہے۔
یہ صورتحال نہ صرف دونوں ممالک کے تعلقات کو مزید خراب کر رہی ہے بلکہ خطے میں ایک بڑے جغرافیائی و سیاسی بحران کا پیش خیمہ بھی بن سکتی ہے۔ پورٹو ریکو میں ایف-35 جیسے جدید طیاروں کی تعیناتی اس امر کی نشاندہی کرتی ہے کہ امریکا عسکری دباؤ بڑھانے کے لیے تیار ہے، جبکہ وینزویلا اس کو اپنی سلامتی اور خودمختاری کے لیے براہِ راست خطرہ سمجھ رہا ہے۔