اسرائیل کی ڈھٹائی پر مبنی جارحیت اور دنیا کی خاموشی

[post-views]
[post-views]

ادارتی تجزیہ

مشرقِ وسطیٰ میں تیزی سے بدلتی ہوئی صورتحال فوری غور و فکر کا تقاضا کرتی ہے۔ چند ہی دنوں میں اسرائیل نے اپنی مقبوضہ سرزمین سے باہر حملے کیے ہیں: تیونس میں فلوٹیلا واقعے سے جڑا حملہ، دوحہ میں بمباری، اور یمن کے وزیرِ اعظم کا ہولناک قتل۔ یہ کوئی اتفاقی واقعات نہیں بلکہ خودمختار ریاستوں پر جنگی کارروائیاں ہیں۔ اس کے باوجود عالمی ردعمل کمزور اور خاموشی سے عبارت رہا ہے۔

ویب سائٹ

بین الاقوامی قانون بالکل واضح ہے کہ ریاستی خودمختاری کا احترام لازمی ہے اور جارحانہ جنگ ممنوع ہے۔ لیکن عالمی نظام دوہرے معیار پر کھڑا ہے۔ چھوٹی ریاستوں کو فوراً پابندیوں اور دھمکیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ اسرائیل کے اقدامات پر محض رسمی اپیلیں سامنے آتی ہیں۔ اس انتخابی رویے نے عالمی اداروں کی ساکھ کو مجروح کر دیا ہے اور یہ حقیقت آشکار کر دی ہے کہ طاقت، قانون سے کہیں زیادہ اثر رکھتی ہے۔

یوٹیوب

اسرائیل کی اصل قوت اس کا امریکہ اور یورپ کے ساتھ اسٹریٹجک اتحاد ہے۔ فوجی امداد، اقوامِ متحدہ میں سفارتی تحفظ، اور مضبوط معاشی تعلقات نے اسے بے خوف بنا دیا ہے۔ ان ضمانتوں کے سائے میں اسرائیل وہ اقدامات کر سکتا ہے جن کی دوسرے ممالک جرات بھی نہیں کر سکتے، یوں وہ خطے کے امن کو کمزور کرتے ہوئے خود ہر قسم کے نتائج سے محفوظ رہتا ہے۔

ٹوئٹر

عرب اور مسلم دنیا کے لیے اس میں ایک تلخ سبق ہے۔ علاقائی اتحاد کی غیر موجودگی نے ایک خلا پیدا کیا ہے جس نے یکطرفہ جارحیت کو ممکن بنایا۔ اجتماعی سکیورٹی کے بغیر ریاستی دارالحکومت اور قیادت ہمیشہ غیر محفوظ رہیں گے۔ تقسیم اور باہمی نفاق کمزوری کو یقینی بناتے ہیں جبکہ بیرونی طاقتوں پر انحصار حقیقی مزاحمت کی راہ مسدود کر دیتا ہے۔ اس صورتحال کا حل صرف علاقائی تعاون اور اتحاد میں ہے۔

فیس بک

یہ تمام پیش رفت عالمی نظام کی بنیادوں کو ہلا رہی ہے۔ اگر ریاستی خودمختاری اور عدم مداخلت جیسے اصول بار بار پامال ہوں گے تو عالمی ضابطے ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جائیں گے۔ نتیجہ ایک ایسا غیر مستحکم نظام ہوگا جہاں قانون طاقت کے تابع اور بدامنی معمول بن جائے گی۔ آج عالمی برادری کی خاموشی غیرجانبداری نہیں بلکہ اس بدتر مستقبل میں شریکِ جرم ہونا ہے۔

ٹک ٹاک

Leave a Comment

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Latest Videos