آئین پاکستان وفاقی، مشترکہ اور صوبائی خدمات کو واضح طور پر الگ کرتا ہے مگر بیوروکریسی کی مداخلت وفاقیت کو کمزور کر رہی ہے۔
پاکستان میں سول سروس اصلاحات پر کوئی بھی گفتگو اس وقت تک نامکمل ہے جب تک آئینی فریم ورک کو نہیں سمجھا جاتا۔ آئین 1973 اس حوالے سے مبہم نہیں بلکہ بالکل واضح ہے۔ آرٹیکلز 240، 241 اور 242 یہ طے کرتے ہیں کہ سروسز کس طرح قائم ہوں گی، کن کے ذریعے چلیں گی اور کس کا دائرہ اختیار ہوگا۔ ان دفعات کو جب آرٹیکلز 142، 97، 137، 118 تا 121 اور کونسل آف کامن انٹرسٹس کے کردار کے ساتھ پڑھا جائے تو تین دائرے سامنے آتے ہیں: وفاقی پوسٹس صرف وفاقی موضوعات کے لیے، مشترکہ پوسٹس مشترکہ موضوعات کے لیے، اور صوبائی پوسٹس صرف صوبائی موضوعات کے لیے۔
لیکن اس وضاحت کے باوجود پاکستان آج بھی نوآبادیاتی دور کی اس اسکیم کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے جسے ’’ریزرویشن آف پوسٹس‘‘ کہا جاتا ہے۔ قائداعظم نے اسے آزادی کے وقت ختم کر دیا تھا، مگر 1954 میں سی ایس پی کمپوزیشن اینڈ کیڈر رولز کے ذریعے دوبارہ متعارف کرا دیا گیا۔ اسی بنیاد پر پی اے ایس اور پی ایس پی نے ہر سطح پر اجارہ داری قائم کر لی۔ صوبائی اسامیاں، چیف سیکریٹری، آئی جی پولیس یا صوبائی سیکریٹریز جیسے عہدے جو آئینی طور پر صوبائی ہیں، وفاقی افسران کو دیے گئے۔
یہ نہ صرف صوبائی خودمختاری پر حملہ ہے بلکہ وفاقیت کی روح کے بھی خلاف ہے۔ آئین کا مقصد یہ ہے کہ نیشنل اسمبلی وفاقی ایگزیکٹو پیدا کرے اور صوبائی اسمبلیاں صوبائی ایگزیکٹو۔ اگر پنجاب اسمبلی وزیر اعلیٰ بناتی ہے تو اسے چیف سیکریٹری بھی بنانا چاہیے۔ وفاقی حکومت کا وہاں افسر تعینات کرنا پارلیمانی اصول کی نفی ہے۔
وفاقی بیوروکریسی نے ہمیشہ فیڈرل سول سرونٹس ایکٹ کو استعمال کر کے دائرہ کار بڑھانے کی کوشش کی، حالانکہ وہ ایکٹ صرف وفاقی ملازمین پر لاگو ہوتا ہے۔ صوبائی ملازمین صوبائی ایکٹس کے تحت آتے ہیں۔ اس کے باوجود بیوروکریسی نے پرانے 1954 رولز کو بچا کر رکھا، حالانکہ 18ویں ترمیم نے صوبائی اختیارات کو مزید واضح کر دیا اور وفاقی و صوبائی ڈومینز کو بالکل الگ کر دیا۔
سب سے زیادہ غلط فہمی “آل پاکستان سروس” کے تصور میں ہے۔ آئینی طور پر اس کا مطلب یہ نہیں کہ کوئی سروس ہر جگہ اختیار رکھے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ مشترکہ اداروں کے لیے قانون کے تحت ایک سروس بنائی جائے جو وفاق اور صوبوں دونوں کی نگرانی میں ہو۔ صوبائی اسامیاں آئینی طور پر صوبائی ہی رہیں گی۔
حقیقت یہ ہے کہ بیوروکریسی کی طاقت کو صرف اسی وقت قابو کیا جا سکتا ہے جب سیاسی قیادت آئینی فریم ورک کو سمجھے اور اس پر ڈٹے۔ اگر منتخب نمائندے بیوروکریسی کے فریب میں آ گئے تو اصلاحات کبھی کامیاب نہیں ہوں گی۔ لیکن اگر وہ وفاقی روح کے ساتھ سول سروس کو آئینی بنائیں گے تو پاکستان مضبوط ہوگا۔
سوال یہی ہے کہ کیا پاکستان ایک حقیقی وفاق کے طور پر اپنی بقا کو یقینی بنائے گا یا بیوروکریسی کے ہاتھوں ایک وحدانی ڈھانچے میں بدل جائے گا؟ آئین کا حکم واضح ہے، فیصلہ اب سیاسی قیادت کو کرنا ہے۔
نعمان خان ایک صوبائی سول سرونٹ ہیں۔